’’ بلوچ جدگال ریاست‘‘ کی آخری والی (سربراہ) ’’ مائی چاہ گلی‘‘ نے بلوچ معاشرے میں ایک نئی روح پھونک دی۔ مردانہ سماج کے ڈھانچے میں ایک عورت کی سربراہی نے سماج میں خواتین کے مساوی حقوق کی بنیاد ڈالی۔ فرسودہ رسم اور رواج کی روایت کا خاتمہ ہوا۔ اس طرح بلوچ معاشرے میں ایک ترقی پسندانہ معاشرے نے جنم لیا جس کو بلوچ معاشرے نے بھی قبو ل کرلیا۔
جدگال بلوچوں کی ریاست دشتیار (ایران) سے لیکر کوٹری (سندھ) تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس ریاست کی آخری والی مائی چاہ گلی تھی۔ مائی چاہ گلی کے بھائی نہ ہونے کی وجہ سے تمام جدگال قبائل نے متفقہ طورپر مائی چاہ گلی کو ریاست کا سربراہ مقرر کیا۔ مائی چاہ گلی نے جدگال ریاست کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے ریاست کا تخت (درالخلافہ) بیلہ (بلوچستان) سے کوٹری (موجودہ صوبہ سندھ) منتقل کردیا۔ مائی چاہ گلی کے دور میں دشتیار سے لیکر کوٹری تک عدل و انصاف کا بول بالا تھا۔ ہر طرف خوشحالی تھی۔ وہ آخری ایام تک کوٹری میں رہی۔ اس کی قبر آج بھی کوٹری میں ہے۔ اس کے انتقال کے بعد آہستہ آہستہ ریاست زوال کی طرف گامزن ہوگئی۔ اور سکڑ کر لسبیلہ تک محدود ہوگئی۔۔ اور اس طرح ریاست لسبیلہ بھی 1742 سے 1955 تک اپنا سفر طے کرکے زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ پھر ریاست لسبیلہ کا پاکستان سے الحاق کیا گیا۔ موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی کے دادا جام غلام قادر عالیانی ریاست لسبیلہ کے آخری والی تھے۔ اس طرح عروج کے سفر کا آغازجام علی خان سے ہوتا ہے اور جام غلام قادر تک زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ گیارہ پشتوں تک چلتا ہے۔
جاموٹ، گنگو، برفت، ہمالانی (ملک) اور ساسولی سمیت دیگر قبائل کا تعلق جدگال نسل سے ہے۔ آج بھی سندھ کے کے ضلع جامشورو میں برفت اور ہمالانی (ملک)، کراچی کے علاقے ملیر میں جام (جاموٹ) اور ابراہیم حیدری میں جاموٹ بڑی تعداد میں ملینگے۔ اور وہ ان علاقوں کے آج بھی سربراہ ہیں۔ جدگال کا مطلب ہے ہماری بولی نہیں بولنے والا۔ ایک جدا بولی بولنے والا۔ دراصل جدگال زبان بلوچی، فارسی اور سندھی کا مرکب ہے۔ آج بھی جدگالی زبان لسبیلہ، کراچی، ایران سمیت خلیج کے دیگر ممالک میں بولی جاتی ہے۔ جدگال بلوچ قوم میں ایک طاقتور اور جنگجو قبائل میں شمار ہوتا ہے۔ جام عالیانی اپنے آپ کو راجپوت نسل سے بتاتے ہیں لیکن اس کے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے ۔ بلوچوں میں صرف گچکی قبیلہ ایک ایسا قبیلہ ہے جو نسلاً راجپوت ہیں۔
مائی چاہ گلی کے بعد بلوچ معاشرے میں عورت کا کردار آہستہ آہستہ پستگی کی جانب رواں دواں ہوا۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی امور کی جگہ عورت کا کردار تقریباً ختم ہوگیا۔ اس کی جگہ مردوں نے لے لی۔ تاہم 2000 کے بعد بلوچستان میں چلنے والی تحریک میں خواتین اور طالبات نے لینا شروع کردیا۔ بلوچ سیاست میں خواتین اور طالبات کی بھر پور شرکت اتنی زیادہ کیوں سامنے آئی۔یہ ایک غور طلب بات ہے۔ آج بلوچ معاشرے میں بلوچ خواتین سیاسی، سماجی اور معاشرتی امور میں مردوں کے شانہ بشانہ سرگرم ہیں۔ وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہوگئیں ہیں۔ سیاسی حلقوں نے بلوچ خواتین کو سیاست میں شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بلوچ سماج میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور ان کی ملنے والی مسخ شدہ لاشیں ہیں۔ ہر دوسرے گھر میں ایک لاپتہ سیاسی کارکن ملے گا اور ہر دسویں گھر میں ایک مسخ شدہ لاش ملے گی۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن روپوش ہیں۔ ان کے وارنٹ گرفتاریاں جاری ہوچکی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر معاشرے میں سیاسی سرگرمیاں مردوں کی جگہ خواتین اور طالبات میں منتقل ہوگئیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں خواتین اور طالبات نے جگہ لے لی۔ جس کی مثال حال میں بانوک کریمہ بلوچ کی شہادت ہے۔ حال میں بے شمار بلوچ خواتین اور طالبات مختلف سیاسی جماعتوں میں متحرک ہوچکی ہیں۔ جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ماہ گنج بلوچ، بانک آمنہ بلوچ، سمی بلوچ، حانی بلوچ، حوران بلوچ، خدیجہ بلوچ، گل بی بی بلوچ سمیت دیگر شامل ہیں۔سماجی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں موجودہ حالات کی وجہ سے خواتین کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئے روز چھاپے اور گرفتاریوں نے خواتین اور بچوں کو ذہنی طور پر متاثر کیاہے۔
دنیامیں جنگوں سے متاثرہ ممالک سے متعلق عالمی انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تنازعات اور مسلح تصادم کے واقعات کی وجہ سے چھ سو تیس ملین خواتین اور بچوں کی صحت متاثر ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا کے تنازعات میں گھرے ہوئے علاقوں میں خواتین اور بچوں کی صحت کو کوئی ترجیح نہیں دی گئی اور یہ کہ عالمی برادری اس محاذ پر ناکام ہوئی ہے۔ جدید دور کی جنگ نے بنیادی سہولیات کو تباہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے صحت کے مسائل مزید پیچیدہ ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیاہے، آج دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جو تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی برادری ان کی مشکلات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
پاکستان میڈیکل ایسویشن کے ایک سینئر رہنما کے مطابق پاکستان میں گزشتہ بیس برسوں میں ذہنی اور نفسیاتی امراض بڑھے ہیں جب کہ عمومی طور پر خواتین اور بچوں کی صحت بھی متاثر ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ظاہر ہے ہمارے ہاں جو حالات رہے ہیں جن میں بلوچستان سرفہرست ہے۔ اس کی وجہ سے کسی کا بھائی اور کسی کا باپ مارا گیا۔ جس کی وجہ سے ایک طرف نفسیاتی اور سیاسی مسائل میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف کمانے والے افراد کی موت کی وجہ سے لوگوں کے مالی وسائل بھی محدود ہو گئے۔اس سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے۔ ان کی بیماریوں میں وسائل کی کمی کی وجہ سے شدت آئی اور اس کا کسی نہ کسی طرح تعلق ان مسلح تنازعات سے بھی ہے۔
گزشتہ روز ضلع کیچ علاقے ہوشاب میں دو معصوم بچے ایف سی کی جانب فائر کئے گئے مارٹرگولہ سے جان بحق ہوگئے۔ لواحقین نے لاشیں لیکر تربت شہر میں شہید فدا چوک پر دھرنا دیا۔ اس دوران جاری احتجاجی کیمپ میں موجود ایک بزرگ خاتون کو ڈپٹی کمیشنر کیچ نے خاموش کرانے کی کوشش کی اور کہا کہ ماسی (عورت) جب مرد آپس میں بات کررہے ہوتے ہیں تو عورت کو خاموش رہنا چاہئے۔ لیکن اس دوران خاتون نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ لاشیں اس وقت تک نہیں اٹھائی جائیں گی جب تک ایف سی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی جاتی۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور ڈپٹی کمشنر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جس پر لوگوں کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے تحت جب خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں تو پھر ڈپٹی کمشنر نے خاتون کو خاموش رہنے کے لیے کیوں کہا۔ لواحقین نے دونوں معصوم بچوں کی لاش لیکر بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ پہنچ گئے۔ جہاں انصاف کے حصول کے لئے دھرنا دیا گیا۔
اس دھرنے میں خواتین اور بچوں کی تعداد مرد حضرات سے زیادہ ہے۔
اس وقت بلوچستان میں طالبہ تنظیموں کی سیاست عروج پر ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے قیام سے لیکر تاہنوز بلوچ تحریک کا ہراول دستہ ہے ، بلوچ سیاست کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ واحد انقلابی ریڈیکل تنظیم ہے۔ انقلابی سیاست کا معمار ہے۔ جب شہید بانک کریمہ بلوچ نے بی ایس او کی چیئرمین شپ سنبھالی تو انہوں نے بلوچ طالبات کو سیاسی کی طرف راغب کیا۔ اور وہ اس مقصد میں کامیابی بھی ہوگئی۔ آج بلوچ طلبہ سے بلوچ طالبات زیادہ سیاسی طورپر باشعور اور سرگرم ہیں۔ جس کا سہرا شہید بانک کریمہ کت سر ہے۔