عمران خان نے تبدیلی، نیا پاکستان، کرپشن فری معاشرے کی تشکیل ،سیاسی و اقتصادی نظام میں اصلاحات اور قوم کوآئی ایم ایف سے نجات دلانے کے ایجنڈے کی بنیاد پر عوام میں پذیرائی حاصل کی۔ اپنے اقتدار کے پہلے سو دن کا ایجنڈا عوام کے سامنے رکھا اور ریاست مدینہ کا تصور پیش کیا، تب کہیں جاکر وہ اقتدار میں آئے۔ الیکشن مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے تھے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خودکشی کرلوں ،لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان کے گرد آئی ایم ایف کا شکنجہ مزید سخت ہو گیا ہے۔عمران خان نے تو خود کشی نہیں کی البتہ ان کے اقدامات کی وجہ سے غریب لوگ ضرور خود کشی کررہے ہیں۔
عمران خان جب اقتدار میں نہیں آئے تھے تو کہا کرتے تھے کہ جب پٹرول کی قیمت بڑھ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کا وزیراعظم چور ہے۔ وزیراعظم یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قرضوں کی رقم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے کے بعد تین سال میں مہنگائی میں جتنا اضافہ ہوا ہے وہ گزشتہ بیس سال میں بھی نہیں ہوا۔تبدیلی سرکار کی جانب سے آئی ایم ایف کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ڈالر کو173 پر پہنچا کر اوربجلی و گیس سمیت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پاکستان کی غریب عوام کو مہنگائی کے سونامی میں غرق کر دیا ہے۔اس وقت مہنگائی کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں حالیہ بھاری اضافہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ سمیت تمام اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں۔ جس سے غریب لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ مہنگائی کا نیا سیلاب کروڑوں پاکستانیوں کے معیار زندگی میں شدید تنزل کا سبب بنے گا اور محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ان کے لیے علاج معالجہ اور تعلیم تو درکنار اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔
آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کے حصول کیلئے پاکستان کے واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کئے توآئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت سے 525 ارب روپے سے زائد کے اضافی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیالیکن حکومت نے 300 ارب روپے کے اضافی ٹیکس پر آمادگی ظاہر کی۔جس کے بعد مذاکرات میں تعطل آگیا۔پاکستان کی جانب سے بجلی ٹیرف میں 1.39 روپے فی یونٹ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10.49 سے 12.44روپے تک اضافہ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف اسٹاف اب بھی میکرو اکنامک فریم ورک سے مطمئن نہیں۔ حکومت کی جانب سے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے باوجود آئی ایم ایف نے ڈومور کا مطالبہ کردیا ہے۔ عالمی سود خور ادارے کی سخت شرائط کے نفاذ کے بعد بھی آئی ایم ایف سے سمجھوتہ نہ ہوپانا تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے معاشی حکمت کاروں کے لیے یقینا ایک سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے۔ معاہدہ ہونے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ سمجھوتے کو ممکن بنانے کیلئے مزید کڑی شرائط تسلیم کرنا ہوں گی۔
اگر تبدیلی سر کار نے آئی ایم ایف کو آئندہ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تو،نومبر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 150 روپے فی لیٹر تک جانے کا خدشہ ہے اوربجلی کی قیمتوں میں مزید 2 روپے 40 پیسے فی یونٹ اضافہ متوقع ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے اوپر ہمیشہ ایسے حکمراں مسلط رہے ہیں جن کو عوام اور ان کے حقوق سے کبھی دلچسپی نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود پاکستان کے عوام بھوک، فاقہ کشی، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے عذاب کا شکار ہیں، اور یہ عذاب اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب اس ملک میں اہل اور ایمان دار لوگ حکمراں بنیں، لہٰذاپاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ سرمایہ داروں، وڈیروں، چودھریوں، جاگیرداروں کو آئندہ الیکشن میں مسترد کردیں، کیونکہ جمہوریت دجالی نظام کو پوری دنیامیں فروغ دینے میں مصروف تنظیم فری میسن کی متعارف کرائی جانے والی اصلاح ہے۔جمہوریت صرف اور صرف استحصالی نظام ہے ،انسانیت کی بقاء اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنے میں پوشیدہ ہے۔qaiserchohan81@gmail.com