کوہلو: کوہلو میں تھلسیمیا کے مریضوں کی تعداد میں آئے روز اضافے اور مرض کے خاتمے کیلئے اقدامات نہ ہونے نے تھلیسمیا سے متاثرہ بچوں سمیت کئی خاندانوں کو پریشان کردیا ہے ضلع میں آئے روز مریضوں کے اضافے نے صوبائی حکومت کے صحت کے حوالے سے موثر اقدامات پر کئی سولات کھڑا کردئیے ہیں ضلع کوہلو کے تحصیل ماوند ،کوہلو شہر ،مری کالونی ،اوریانی سمیت مختلف علاقوں میں تھلسیمیا سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ نے کئی والدین کو اپنی جائیدادیں اور دیگر قیمتی چیزیں فروخت کرنے پر مجبور کیا ہے متاثرہ مریضوں اور ان کے والدین نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہماری مریض کئی سال سے زندگی اور موت کے کشمکش میں جی رہے ہیں۔
جبکہ کئی مریض خون کی عدم فراہمی پر جان کی بازی ہار چکے ہیں مہلک مرض سے نمٹنے کیلئے ایک دہائی گزارجانے کے باوجود بلڈ بینک تاحال قائم نہیں ہوسکا ہے جس سے مریضوں میں انتقال خون کا مسئلہ سنگین صورت حال اختیار کرچکا ہے مریضوں کے مطابق خون دستیاب نہ ہونے سے ناصرف وہ مزید بیمار ہوجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات موت کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد کوئی شخص منت سماجت کے بعد اپنا خون دے دیتا ہے جس سے ان کے جسم میں خون کا حصول کئی ہفتوں تک عارضی طور پر تو ختم ہوجاتی ہے مگر پھر مشکلات گھیر لیتے ہیں اور خون کے حصول کے لئے سرگرداں ہوکر کئی لوگوں سے رابطہ قائم کرنا پڑتا ہے۔
مریضوں کے ورثا نے بتایا کہ یہ ناصرف متاثر ہ مریضوں سے پریشان ہیں بلکہ یہ ایک مورثی بیماری ہے جو ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں منتقل ہوجاتا ہے اور ہمارے کئی خاندان اور علاقے کے لوگ ہر آئے سال مزید متاثر ہورہے ہیں یہاں ناصرف تھلسیمیا کے علاج کا فقدان ہے بلکہ اس کے ساتھ ٹیسٹ سمیت شعور آگاہی بھی نہ ہونے کے برابر ہے جس سے بچوںکے مزید متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے اس حوالے جب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اصغر مری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ضلع میں ناصرف تھلسمیا سے متاثرہ بچوںکی بڑی تعداد موجود ہے بلکہ ضلع میںبلڈ بینک نہ ہونے سے مریضوں کے خون کے حصول میں بھی شدید مشکلات درپیش ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ صحت اور ہسپتال میں موجود محدود سہولیات سے مریضوں کی علاج کی جاتی رہی ہے جس میں کچھ مخصوص گولیاں شامل ہیں تاہم اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر بلڈ بینک اور دیگر بنیادی ا قدامات ناگزیر ہوچکے ہیں ۔