تربت: بلوچ قوم پرست سیاسی رہنما حسین واڈیلہ نے شہید فدا چوک تربت میں عوامی تحریک بلوچستان کے زیر اہتمام بارڈر پر ٹوکن سسٹم اور تجارتی سرگرمیوں کی بندش کے خلاف مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اس خطے میں دنیا کے امیر ترین سرزمین کے غریب ترین عوام ہیں، معدنیات اور قدرتیات بیش بہا وسائل سے مالا مال سرزمین کے مالک نان شبینہ کے محتاج بنادیے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ مسلسل زیادتیوں کے خلاف عوام کا جزبہ گرم ہے، بلوچ کے اس جزبہ کو ہمیشہ گرم رہنا چاہیے تاکہ کسی غیر کو اس سرزمین کے وسائل ہڑپنے سے پہلے بلوچ جزبے اور بہادری کا خوف رہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کشت و خون کا بازار گرم ہے، ہمارے نوجوان سالوں سے لاپتہ ہیں، ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہیں، ہر گھر سے ایک بچہ لاپتہ یا شہید کردیا گیا ہے یہ سب سی پیک کی کرامات ہیں، سی پیک کو آسمانی صحیفہ سمجھا گیا ہے کہ کوئی اس کا نام نہ لے، اس کی بربادیوں کا زکر نہ کرے، سی پیک کی قہرمانیون سے بلوچ کا کوئی گھر نہیں بچا کوئی بلوچ محفوظ نہیں، انہوں نے کہا کہ سمندر بلوچ کا میراث ہے مگر بلوچوں کے لیے سمندر میں جانے پر پابندی عائد ہے، بارڈر پشتوں سے ہمارا تجارتی مرکز رہا ہے، بارڈر کے دونوں اطراف ہمارے خونی رشتے ہیں لیکن اس پر بھی پابندی لگادی گئی ہے کہ کوئی بلوچ بارڈر پر اب ٹریڈ کرسکتا ہے اور نا ہی اپنے رشتہ داروں کی عیادت کے لیے جاسکتا ہے، ہم اگر ملک باشندے اور بلوچستان اس کا وحدت ہے تو ہمارے ساتھ یہ زیادتی اور ایسا ظلم. کیوں کیا جارہا اگر ایسا نہیں ہے تو اعلان کیا جائے کہ بلوچ اس ریاست میں غلام ہین پھر کوئی گلہ زاری نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جہاں بہادری دکھانے کی جگہ تھی وہان بزدلی کے نشان پڑے ہیں، ھم بلوچ ننگ و ناموس کے مسلے پر جان سے گزرنے کو ترجیح دیں گے مگر عزت و آبرو اور ننگ و ناموس کا سودا نہیں کریں گے، مسلسل ہمارا عزت نفس مجروح کیا جارہا یے، بارڈر پر جانے والے ہمارے ڈرائیور سے مزدوری کا کام لیا جاتا ہے ، ہمارے چرواہے بھی بکریاں چرانے کے لیے ٹوکن پر ہیں، انہوں نے کہا کہ بہادری، شجاعت، دلیری اور ننگ و ناموس کی حفاظت میں ہماری ایک درخشان تاریخ ہے، وطن فروش، ملک فروش اسلحہ بردار بلوچوں کے قاتل ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ان کی کتنی اوقات ہے، گدھے کبھی شیر نہیں بن سکتے ہیں، اپنی سرزمین کے مالک ہیں، جدوجھد ہمارے لیے اپنی سرزمین کے تحفظ کا آخری زریعہ ہے، حق کی خاطر مرنا بڑی بات نہیں، عام بلوچ کی وقت عزت نفس اور روزگار محفوظ نہیں مگر منشیات کا کاروبار آزادانہ ہوتی ہے۔
منشیات فروش میر و معتبر ہیں، کسی قوم میں دلالوں کی عزت نہیں ہوتی، ہمیں اس زمین کی مٹی سے پیار ہے، یہ ہمارا سرزمین ہمارا وطن ہے، ہماری مٹی ہمیں پہچانتی اور ہماری زبان سمجھتی ہے، حکمران طبقہ کو دلال منافق اور بے غیرت بلوچ پسند ہیں، عوام کی طاقت کو سمجھنا اور جاننا چاہیے، اتحاد اور یکجہتی کامیابی کا زریعہ ہے، بلوچ عوام کو اتحاد کے ساتھ رہنا چاہیے، ناکو محراب اور پیر زال کو سلام پیش کرتے ہیں جن کی مزاحمت نے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات کو جان بوجھ کر خراب کیا گیا، حیات بلوچ جیسے نوجوانوں کو سرعام مان باپ کے سامنے قتل کرکے کہا جاتا ہے کہ یہ غلطی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر میں ہندوستان کی مظالم اور حق پرست کشمیریوں کے ساتھ ہیں لیکن اکبر خان کے تابوت پر تالے لگانے والے سید علی گیلانی کے جنازے پر اشکبار ہیں، ہمیں کریمہ بلوچ کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی، بلوچ کو آپس میں لڑانے کی سازش کی جارہی ہے ہمارا اتحاد ہمیں منزل تک. پہنچا سکتی ہے اس لیے بلوچوں کو اتحاد و یکجہتی کے ساتھ رہ کر مشکلات اور چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہیے۔مظاہرہ سے نیشنل پارٹی کے رہنما فضل کریم، طارق بابل، بی این پی کے ضلعی صدر میجر جمیل دشتی، میر حمل بلوچ، پی این پی عوامی کے مرکزی رہنما خان محمد جان، بی ایس او کے مرکزی وائس چیئرمین بوھیر صالح سمیت مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں نے خطاب کیا۔