بلوچستان متعدد متضاد صفات سے مزین ایک خوبصورت خطہ ہے۔ ایک طرف یہاں فطرت نے امن اور آشتی کے بیش بہا خزانوں کو پرو کر ایک زمینی جنت کی مانند اسے سجا دیا ہے۔تو دوسری طرف زر و حرص کے تابع طالع آزمائوں اور انگریز راج کے گماشتوں نے اسے جنگوں کے عفریت میں دھکیل کر بدامنی کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح ایک طرف یہاں سیاسی شعور اپنی انتہا پر ہے تو دوسری طرف اسی ماحول میں فرد واحد کی حاکمیت و چاکری کے بدنما نشان بھی ثبت نظر آتے ہیں۔ ایک طرف اصول پسندی، مہمان نوازی، دلیری اور فیاضی جیسے خوبصورت اوصاف اسی بلوچستان کی پہچان ہیں تو دوسری بزدلی، منافقت، چاپلوسی اور ابن الوقتی جیسے گھٹیا اوصاف مصنوعی طریقے سے انڈکٹ کر دیے گئے ہیں۔
بلوچستان کی سیاسی تاریخ پورے خطے میں الگ پہچان رکھتی ہے۔ اس تاریخ میں قربانیاں ہیں، جدوجہد ہے، مزاحمت ہے اور حق و صداقت کے پرچارک زیرک سیاستدانوں کا ذکر بھی۔ یوسف عزیز مگسی، گل خان نصیر، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، اکبر بگٹی، شیرو مری اور عطاء اللہ مینگل جیسے مدبر سیاستدانوں کے اسباق سے گمراہ کن اندھیروں کے باوجود ڈھونڈنے والوں کیلیے راستوں کے نشان واضح اور روشن ہیں۔ ان عظیم قائدین کے علاوہ سینکڑوں ہزاروں سیاسی کارکنان کی مسلسل جدوجہد کی داستان گواہ ہے کہ اس خطے نے کبھی کسی کم ظرف کو قبول نہیں کیا۔اس کے برعکس موریائی سلطنت کے چشم و چراغ چندرگپت موریا کے استاد کوتلیا یا وشنوگپتا المعروف چانکیا کی شاطرانہ طرز سیاست سے متاثر “ارتھ شاسترا” کے مقلدین نے اب بلوچستان کی اصول پسندی، جدوجہد اور مزاحمت کی تاریخ کو مسخ کرنا شروع کر دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں بلوچستان میں بڑی سیاسی تبدیلی پر بحث ہو رہی ہے۔ جام حکومت کے خلاف عدم اعتماد لائی جا رہی ہے۔ یقینی طور پر جام انگریز سرکار کی مدھم ہوتی نشانیوں میں سے ایک ہے اور ہماری اشرافیہ وقتاً فوقتاً اس پہ ملمع کاری کر کے نئے رنگ روپ میں سجاتی رہتی ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جام کم ظرف رندوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن جام کو سازشی انداز میں ہٹانا بھی ایک قابل مذمت عمل ہے۔ دوسرا جام کے بعد آنے والے جام سے بدتر حاکم ثابت ہوں گے۔ اس تمام تر صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر بلوچستان کا عام آدمی ہو گا۔ پورے ملک میں ویسے تو جمہوریت نام کا پرندہ بلوچستان میں “نیپ” حکومت کے جابرانہ خاتمے کے بعد اڑ چکا ہے اور واپس آنے کا نام تک نہیں لے رہا۔
جس مائنڈ سیٹ نے بلوچستان کی پہلی جمہوری اور منتخب حکومت کو غیر جمہوری طرز پہ ہٹایا اس کی باقیات اب تک اپنے آقائوں کے اشاروں پہ بلوچستان میں پائیدار جمہوری عمل پنپنے نہیں دے رہے۔
پورے ملک اس وقت ایک غیر جمہوری حکومت بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے۔ پنجاب میں بھی صورتحال بلوچستان سے مختلف نہیں۔ وہاں پر بھی تو یہی عدم اعتماد سمیت کئی آپشنز پہ کام ہو سکتا ہے۔ وفاق کی صورتحال بھی کم و بیش بلوچستان جیسی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر وقت یہ متنازعہ طریقہ بلوچستان میں ہی کیوں اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ میری سمجھ بوجھ کے مطابق اس کے سوا کچھ نہیں کہ بلوچستان کے پختہ سیاسی اسٹرکچر کو پنپنے نہ دیا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ بلوچستان میں ابن الوقت سیاست دانوں کی بہتات ہے۔ اصل مسئلہ سنڈے مین کے گماشتوں کے کم ہوتے اثر رسوخ کو کسی طور بحال کرنے کی کوشش ہے۔اس کے علاوہ ابن الوقت چند مزید غلام پیدا کرنے کی بے ہودہ کاوش بھی اس سارے عمل میں کارفرما ہے۔ اس طرح کا ماحول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ یہ انگریز باقیات جب چاہیں اپنے آقائوں کی غائبانہ مدد سے بلوچستان میں کوئی بھی غیر آئینی کھیل کھیل سکتے ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی اخلاقیات کو دفن کرنے میں جو لوگ ملوث ہیں اور جو اس سارے دھندے میں ان کی سہولت کاری کر رہے ہیں وہ بھی سماجی و سیاسی اخلاقیات پر بدنما داغ ہیں۔ جام یقینا ایک متنازعہ ترین کریکٹر ہے لیکن بقول میر حاصل خان ایوان کو منڈی بنانے والوں کا بھی تاریخ محاسبہ کرے گی۔ گلہ باپ کے ابن الوقت سیاسی شاطروں سے نہیں اور نا ہی گلہ اس شطرنج کی بساط بچھانے والے کاریگروں سے ہے، ایک ہلکا سا گلہ نہ سہی سوال تو بہرحال اٹھتا ہے کہ عطاء اللہ مینگل کے جانشین بلوچستان جیسی پوتر سیاسی سرزمین پر اس طرح منڈی لگانے والوں کو کیسے سپورٹ کر سکتے ہیں۔ عطاء اللہ مینگل اس خطے کا بڑا سیاست دان تھا۔ ان کی بڑائی کی وجہ ان کا قبائلی اثر و رسوخ نہیں بلکہ سیاسی اصول پسندی اور سیاسی شعور و فراست کی بنیاد پر تھا۔ اس نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، تحریکیں چلائیں، جلا وطن رہے لیکن کبھی سیاسی اصولوں پہ سودے بازی نہیں کی۔ اب بھی ان کی سیاسی تربیت یقینا اس عمل کی توثیق نہیں کر سکتی۔ یہ زیادہ تر وہ ٹرائیبل مائینڈ سیٹ ہے جو سیاسی اخلاقیات سے نا بلد ہے اور ہر صورت طاقت کے حصول کا خواہاں ہے۔
بلوچستان میں ویسے تو اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں کہ جہاں لاشیں تک احتجاج کرتی نظر آئیں وہاں طاقتوں کی باہمی لڑائی زیر بحث آئے۔ لیکن سنڈے مین کے پیروکاروں کی اس زر پرست نفسیات پر بحث ضروری ہے۔ انگریز کے تربیت یافتہ فتنہ گروں کو اب بلوچستان میں بے نقاب کر کے ان کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی کارکنان ضرور اس بات کا ادراک رکھیں کہ اس سرداری و جاگیرداری سنڈے مین سسٹم کے خاتمے کے بغیر بلوچستان میں خوشحال و جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔