جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے ڈیرہ جات کے بلوچ اپنی قومی شناخت آہستہ آہستہ کھو دیں گے۔ ان کی زبان اور ثقافت زوال پذیر ہونے کی جانب گامزن ہو جائے گی۔ خطے میں پنجابی اور سرائیکی کلچر بلوچ کلچر پراثر انداز ہورہا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ مزید بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ڈیرہ جات کے میدانی علاقوں میں آباد بلوچ اپنی زبان سے ناآشنا ہورہے ہیں۔ ان کی مادری زبان پر سرائیکی زبان کا غلبہ ہے۔ کوہ سلیمان کے نیچے کے علاقے جن میں تونسہ، بھکر، راجن پور وغیرہ شامل ہیں کی آبادی کی مینٹل گروتھ اور کلچرل گروتھ دوسرے کلچروں سے مکس ہوگئی ہے۔ بلوچی اور سرائیکی کا کمبنیشن بن گیاہے۔ مستقبل میں میدانی علاقے کے بلوچ برائے نام بلوچ رہ جائیں گے۔ ظاہر ہے نسل تو تبدیل نہیں کی جا سکتی ۔ البتہ کلچروثقافت اور زبان سے محروم ہوجائیں گے۔ جبکہ اوپر سے جنوبی پنجاب صوبہ بن جانے سے بلوچ اپنی قومی شناخت سے محروم ہوجائیں گے۔
ڈیرہ جات کی آبادی جو کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے۔ وہ آج بھی بلوچی بولتے ہیں۔ انہوں نے بلوچ کلچر اور ثقافت کا دامن آج بھی نہیں چھوڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی قومی شناخت بلوچ ہونا ہے۔ان کی ہمدردیاں اور مطالبہ یہ ہے کہ وہ بلوچستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جبکہ پہاڑی علاقے سے نیچے کے میدانی علاقے کے بلوچوں کی زبان پر سرائیکی زبان اثرانداز ہے۔ میدانی علاقے کے لوگوں نے سرائیکی زبان کواپنایا ہوا ہے۔
ایوب خان کے ون یونٹ کے دور میں جب بلوچستان صوبے کی حد بندی کی جارہی تھی۔ اس دوران ڈیرہ جات کو بجائے بلوچستان میں شامل کرتے ، پنجاب شامل کردیا گیا۔ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا۔ اس انتظامی حد بندی نے خطے میں معاشی رشتوں کا رنگ ڈھنگ تبدیل کردیا۔ ظاہر ہے انتظامی حد بندی سے ایک نئی معاشی منڈی جنم لیتی ہے۔ جس کی وجہ سے ڈیرہ جات کے بلوچوں کو مجبوراً زندہ رہنے کے لئے اپنے معاشی رشتے دیگر صوبوں کے لوگوں کے ساتھ استوار کرنا پڑے۔ موجودہ مادی دور میں معاش ایک اہم مسئلہ ہے جس سے ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ معاشی تعلقات رکھتی ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ سماجی رشتے استوار کرتے ہیں۔اور خونی رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں۔
انتظامی حد بندی ایک نئی سیاسی کلچرکو بھی ڈیولپ کرتی ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ ایک دوسرے کے اسٹیک ہولڈرز بن جاتے ہیں۔ اور اقتدار کے حصول کے لئے سیاسی کلچر کو اپنانا پڑتا ہے۔ جس سے نئی سوچ (نفسیات) جنم لیتی ہے۔ آج ڈیرہ جات کے بلوچ پنجاب میں سرائیکی اور پنجابی اسٹیک ہولڈرز کا ایک اہم جز سمجھے جاتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر آج پنجاب میں آپ کو سردار عثمان بزدار کی شکل میں ایک بلوچ وزیراعلیٰ نظر آتا ہے۔ ماضی میں بلوچ، صدر پاکستان، پنجاب کے گورنراور پنجاب کے اسپیکر کے عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔ جن میں سردار فاروق لغاری، سردار ذوالفقار کھوسہ، سردار دوست محمد کھوسہ، میر بلخ شیرمزاری اور دیگر شامل ہیں۔
سرائیکی زبان ملتان اور بہاولپور خطے کی صدیوں پرانی زبان ہے۔ سرائیکی زبان موجودہ جنوبی پنجاب، جنوبی خیبر پختونخوا، شمالی سندھ اور مشرقی بلوچستان میں بولی جاتی ہے۔
ڈیرہ جات کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ یہاں دودائی بلوچوں کی حکومت قائم تھی۔ دودائی بلوچ کا شمار لاشار میں ہوتا ہے۔ فتح خان دودائی اور سہراب خان دودائی حکومت کرتے تھے۔ میر حاجی خان بلوچ نے اس سلطنت کا نام بدل کر اپنے فرزندوں کے نام پر ڈیرہ جات کے نام رکھے۔ انہوں نے اپنے فرزند غازی خان کو ڈیرہ غازی خان ،اسماعیل خان کو ڈیرہ اسماعیل خان،فتح خان کو ڈیرہ فتح خان(تونسہ شریف) اور چھٹہ خان کو کوٹ چھٹہ کے نام سے منسوب کر کے تقسیم کر دیا۔
ڈیرہ جات بھی بلوچ کنفیڈریشن کا حصہ تھا۔ جس کا سربراہ خان آف قلات تھا۔ تاریخی طور پر خان آف قلات کے زیرسایہ تمام بلوچ ریاستیں آتی تھیں۔ جن میں ریاست مکران، ریاست خاران، ریاست لسبیلہ، ریاست حیدرآباد، ریاست میرپور خاص، ریاست خیرپور، ریاست ٹنڈو محمد خان، ریاست چانڈکا (موجودہ لاڑکانہ) اور ڈیرہ جات کی ریاستیں شامل تھیں۔ وادی سندھ اور پنجاب کے بلوچ آبادیوں کو پنجاب میں سکھ سلطنت کے بانی مہاراجا رنجیت سنگھ سے خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ سکھ فوج، بلوچ علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ اور خان آف قلات ان بلوچ ریاستوں کے دفاع کے لئے ہروقت تیار رہتا تھا۔ خوشاب بھی ڈیرہ جات کا حصہ تھا جب خوشاب میں قائم سردارجعفرخان بلوچ کی حکومت پر رنجیت سنگھ اچانک حملہ کرتا ہے تو خان صاحب ان کی کمک کرنے بروقت نہیں پہنچ پاتا جس سے سردار جعفرخان شکست قبول کرلیتا ہے۔ اس فتح کا سکھ پندرہ دن جشن مناتے ہیں۔ سردار جعفر خان بلوچ کی تلوار آج بھی پنجاب میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ ایک بہادر جنگجو سردار کہلاتا تھا۔
جب انگریز اس خطے میں آئے۔ انہوں نے ڈیرہ جات پر قبضہ کرلیا۔ مگر ڈیرہ جات کے کوہ سلیمان بیلٹ کے بلوچ قبائل نے سردار کوڑا خان قیصرانی،سردار مصری خان کھیتران،سردار قادر بشک مسوری اور میر مہر اللہ خان مری کی قیادت میں انگریزوں سے جنگ جاری رکھی لیکن انگریزوں کی طاقتور فوج نے 1887کو ڈیرہ جات کو مکمل اپنے قبضے میں لے لیا۔ مکمل تسلط قائم کرنے کے بعد انگریزوں نے ایک معاہدے کے تحت ڈیرہ جات کو برطانوی ہند کے انتظامی اختیارات میں دے دیا۔27نومبر1946کو نواب اکبر خان بگٹی ،سردار دودا خان مری اور نواب جمال خان لغاری نے انگریز سرکار کو ایک یاداشت پیش کی کہ برصغیر کی آزادی کے ساتھ ہی ڈیرہ جات کو بلوچستان میں شامل کیا جائے لیکن ہندوہستان کی تقسیم کے بعد15 اگست 1947 کو محمد علی جناح نے بطور پہلے گورنر جنرل ایک حکم نامہ جاری کیا کہ مری،بگٹی اور ڈیرہ جات کی قبائلی و آئینی حیثیت کو ایسے ہی رہنے دیا جائے۔ جب تک یہ قبائلی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود نہ کریں۔ یکم مارچ 1949 کو ڈیرہ غازی خان میں ڈیرہ جات کے مستقبل کے فیصلے کے لئے گورنر پنجاب سر فرانسس مودی کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں تمام سردار اور قبائلی معتبرین نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں متفقہ کثرت رائے سے یہ فیصلہ ہواکہ ڈیرہ جات کا مستقبل بلوچستان سے وابستہ کیا جائے۔مگر حکومت پنجاب نے مسلسل دھونس دھمکیوں اور قانون ساز اسمبلی کے ذریعے قبائلی رائے کو یکسر مسترد کر دیا۔ زبردستی ڈیرہ جات کو پنجاب میں شامل کرلیا۔تاہم کچھ بلوچ تاریخ دان ڈیرہ جات کو پنجاب اور کے پی میں ضم کرنے کو بلوچ سردار اور نوابوں کی چپقلش کو بھی قراردیتے ہیں جس سے عام بلوچ خوش نہیں تھا۔ تاہم وہ قبائلی نظام کی مضبوطی کی وجہ سے خاموش رہے۔ ون یونٹ کے زمانے میں جب بلوچستان صوبے کی حد بندی کی جارہی تھی۔ اس وقت لغاری قبیلے کے سربراہ نواب سرجمال خان لغاری خود کوئٹہ میں موجود تھا۔ وہ محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کو بلوچستان کا گورنر بنانے پر غور کیا جارہا تھا جس پر اختلافات پیدا ہونے کے بعد بلخ شیر مزاری (بعد میں نگراں وزیر اعظم بنے) نالاں ہوگئے۔ اور ان کی درخواست پر آمر حکمرانوں نے ڈیرہ جات کو کوئٹہ کمیشنری کے بجائے لاہور کمیشنری میں شامل کردیا ۔ اور وہ پنجاب کا حصہ بن گیا۔ تاہم اس تھیوری کو بعض بلوچ رد کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ڈیرہ جات کو پنجاب میں شامل کرنے کی سازش آمر حکمرانوں کی ہے۔ جس کا مقصد تھا کہ بلوچ مرکزیت کا خاتمہ کیا جائے ان کی عسکری طاقت کو پارہ پارہ کیا جائے۔