کاروباری حضرات کو اکثر یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کا تجزیہ کریں جسے انہی کی زبان میں ( SWOT Analysis) یعنی ایس، ڈبلیو، او اور ٹی (سوواٹ) تجزیہ کہتے ہیں۔ کاروبار میں اس تجزئے سے گزرنا اس لئے بھی لازم ہے کہ آپ کو اپنے کاروبار کی تمام تر صلاحیتیں، اچھائیاں، کمزوریاں، اس کے اندر چھپی مواقع نظر آئیں اور بالآخر کاروبار کیلئے لاحق خطرات کو بھی تول لیں تاکہ ان سے نمٹنے کیلئے کاروباری حضرات کے پاس کچھ اچھے بھلے پالیسیوں کی بھرمار ہونا ضروری ہے کہ وہ ان خطرات سے دوچار ہونے سے پہلے پہلے خود کو انکی چنگل سے نکال کر آزاد کردیں وگرنہ کاروبار مارکیٹ میں قدم جما سکے گی نا ہی وہ شخص ایک اچھا کاروباری شخصیت کہلانے کا حقدار قرار پائے گا۔
پھر خیالات نے اس وقت رخ موڑ لیا جب نیشنل انکیوبیشن سینٹر کے منیجر بشیر آغا صاحب نے اپنا آپ ایس ڈبلیو او ٹی تجزیہ کرنے کا ایک مشفقانہ مشورہ دے دیا۔ اور یوں میرے ذہن کی بتی جلا دی کہ کیوں نا ہم انسان ہی خود اپنے آپ کا سوواٹ اینالائز کریں؟ کیوں نا ہم پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے اندر کی دنیا اپنے آپ پیدا کریں؟ اپنے ایسے عادات، صلاحیتوں اور خوبیوں پر نظر رکھیں جو ہمیں کہی سے کہی لے کر جانے کہ طاقت رکھتے ہیں۔ اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کی صلاحیت، زمین سے چاند اور ستاروں کے بیچ پہنچانے والے خوبیاں جنہیں ہم نے یہ سوچ کر دل کی قبرستان میں سپردِ خاک کر ڈالا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ مگر یاد رہیں اپنے خوبیوں کو ابھار کر باہر نکالنے سے کترا جانا بھی آپکی ایک خامی ہے جو کہ اس تجزئیے کا دوسرا پہلو ہے۔ لوگوں کی خاطر آپ اچھا بننا چھوڑ دینگے کہ وہ کیا کہتے ہونگے مگر لوگ تو چاند پہ پہنچ جانے کے بعد بھی خامیاں گنواتے رہے۔ مائیکل ہارٹ نے مجموعی طور پر سو عظیم شخصیات میں سے ایک پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کو عظمتوں میں سر فہرست ڈال دیا، خدا نے بھی انہیں سب پر فوقیت دی، امام الانبیاء کا لقب دے دی مگر ان پر بھی لوگ نقطہ چینیوں سے باز نہیں آتے تو ایسی دنیا کی خاطر ہم اپنے خوبیاں کیوں چھپائے جو ہمیں خود آگے لے جانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں؟
سوواٹ انالائز میں دوسرا لفظ “ڈبلیو” بڑا ہی کا آمد اور تمام جانوروں سے پرے ایک خاص انسانی صلاحیت ہے جسے بہت کم لوگ ہی کر پاتے ہے جو کہ ہمارے کمزوریاں یا (Weakness) گننے کا نام ہے۔ ہم میں سے ہر کسی کے ساتھ خامیاں، کمزوریاں ضرور ہوا کرتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں ناپسند کرتے ہیں، جنکی وجہ سے اکثر ہمیں لوگوں کے سامنے اپنا آپ بہت چھوٹا اور نیچا دکھائی دیتا ہے۔ انہیں عادتوں اور خامیوں کی وجہ سے لوگ ہم سے بچ نکلنے کی تگ و دَو کرتے رہتے ہیں کیوں نا انہیں خامیوں کو ڈھونڈ نکال کر انہیں خود سے الگ کیا جائے؟ کیوں نا اپنے خامیوں کا تجزیہ کرکے انکو اپنا مضبوطی بنائیں کیوں نا اپنے گریباں میں جھانک کر دوسروں سے پہلے خود پر تنقید کریں۔ مگر جھانکے کون؟ ہمیں تو دوسروں کی خامیوں کے حساب کتاب اور پھر نفرت کرنے سے فرصت ملے گی تو اپنی خامیاں، کمزوریاں اور وحشی پن جان پئیںنگے۔ کیا خوب لکھا ہے کسی نے:
“نگاہِ عیب گیری سے جو دیکھا اہلِ عالم کو
کوئی کافر، کوئی فاسق، کوئی زندیقِ اعظم تھا
مگر جب ہوگیا دل احتسابِ نفس پہ مائل
ہوا ثابت کہ ہر فرزندِ آدم مجھ سے بہتر تھا”
یقیناً بہت کڑوی مگر سچ بات تو یہی ہے کہ ہر شخص ہم سے کہی گناہ بہتر ہوسکتی ہے مگر جب ہم کو اپنے خامیاں نظر آنا شروع ہو جائیگی تو۔ ہم دوسروں پہ انگلی تو اٹھاتے ہیں مگر خود پر اٹھے انگلیوں کو مروڑ کر کچل دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ بھی ہماری خامیوں میں سے ایک بد ترین خامی ہے۔ ہمیں خود کو ایک ایسے سانچے میں ڈالنے کی ضرورت ہے جہاں تنقیدیں عداوتیں اور اپنی طرف اٹھی انگلیاں اپنی بھلائی کا سامان لگنے لگے تب ہی تو ہم ان کمزوریوں کو صحیح معنوں میں سن کر پھر انکا خاتمہ کرسکتے ہیں۔
اس اینالائز میں جب مواقع (Opportunity) کی بات کی جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہر شخص کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسکے حصے کی خوشی، کامیابی موقع اور روشنی پیدا کرکے رکھ ہی دیا ہے مگر شرط لازم ہے کہ اپنے حصے کی تلاش خود کرنی ہے ورنہ ہمارا حصہ ہمیں ملے بغیر ہی ضائع ہو جائے گی اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ باندھے زندگی گزار کر اس دیار فانی سے کوچ کر جائینگے۔
کیوں نہ آج ہی اپنے حصے کی، اس پر اسرار موقعے کی تلاش شروع کی جائے جو کہی نہ کہی ہمارے اپنے اندر ہی موجود ہے۔ اپنے اندر کی دنیا کو دریافت کرنے کیلئے ہمیں بھی اپنے خوابوں کے پیچھے مستحکم ارادے سے جانا چاہئیے جیسے پائولو کوئیلوں کی لکھی گئی کتاب الکیمسٹ میں ایک چرواہا لڑکا سب کچھ چھوڑ کر اپنے خوابوں کے پیچھے بوریا بستر باندھ دیتا ہے اور بالآخر کئی برسوں کی سفر، کامیابیوں، ناکامیوں اور مشکلات کے بعد اپنے منزل کو اپنے ہی اندر اپنے ہی شہر میں واپس آکر پالیتا ہے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنا ہے تو ہمیں کھلے آنکھوں خواب دیکھ کر پھر انہیں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دور کہی نکلنا ہوگا۔
رہی بات خطرات (treats) کی تو انہی کی اندازہ لگا کر ان سے بچتے رہنے میں ہی ہماری عافیت ہے پھر وہ چاہے لوگ ہو جن کے ساتھ بیٹھ کر ہماری ایمان، عزت و آبروں کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ یا جگہیں، پیسے، یا اوقات ہو جو ہمارے لئے مشکلات، شرمندگی اور احساس کمتری کی باعث ہو ان سب سے دور رہہ کر اپنی کامیابی کی منزلیں طے کرنا ہی ایک عقل مند انسان کی نشانیاں ہیں۔ اور ایک اچھے بزنس مین کی طرح ایک اچھے انسان کو بھی اپنا سوواٹ انالائیز کرنا ضروری ہے کہ کئی نسانوں کی اس بھیڑ میں ہم بھی صرف گوشت پوست کے ہڈیوں سے بننے انسان نما جانور نہ بن جائے جس کے ہونے نا ہونے سے کسی کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔