|

وقتِ اشاعت :   November 13 – 2021

بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں طلباء اور سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور چھاپوں کے خلاف احتجاج اور ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں مہینے میں 38 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کردیاگیا جن میں اکثریت بلوچ طلبا کی ہے۔بلوچستان یونیورسٹی سے 2 طلبہ کے لاپتا ہونے پر ساتھی طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے طلبہ کے احتجاج پر تین رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی نے احتجاج کرنے والے طلبا سے ملاقات کی اور کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جلد لاپتہ طلباء کی بازیابی کے لئے احکامات جاری کردیں گے۔ ماضی میں بھی وزیراعظم عمران خان نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کی اورلاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے حکام کو احکامات جاری کردیئے تھے لیکن وزیراعظم کے احکامات بھی لاپتہ ہو0گئے اور لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے۔

طلباء کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل ہی سے دوطالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ اب بلوچستان میں مطالعہ پاکستان کے طالبعلم بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں مطالعہ پاکستان کے طالبعلم ہیں۔ طلبا کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اس سلسلے میں جامعہ کے انتظامیہ تک رسائی کی گئی، لیکن انتظامیہ نے مختلف حیلوں بہانوں کا سہارا لیتے ہوئے کسی قسم کی کاروائی سے گریزکا رویہ اختیارکیا۔ جامعہ کے احاطے سے طالبعلموں کی گمشدگی میں یونیورسٹی کی انتظامیہ اورسکیورٹی ادارے براہ راست ملوث ہیں۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بلوچستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ رواں مہینے میں 38 افراد لاپتہ کردیئے گئے۔ ان کی جاری کردہ فہرست کے مطابق بلوچستان کے علاقے مشکے سے ایک دس سالہ بچے سمیت نو افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیاگیا ہے۔جن کی شناخت کمسن امداد ولد یوسف، انور ولد محمود، حسین ولدگاجی خان، نصیر ولد یوسف اور امداد ولد یوسف کے ناموں سے ہوئی ہے۔
اس سے قبل ڈیرہ بگٹی، پنجگور اور مشکے سے دو بھائیوں سمیت پانچ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیاگیا ہے۔

سندھ کے مرکزی شہر کراچی سے حالیہ کچھ دنوں کے اندر بلوچ اکثریتی علاقوں سے پندرہ سے زیادہ افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیاہے۔ لاپتہ افراد کا تعلق گولیمار ، لیاری، ملیر اور دیگر علاقوں سے ہیں۔ لاپتہ ہونے والوں میں تین کی شناخت ہو چکی ہے ان میں نبی سکنہ کلری، عدنان صدیق اور سمیع اللہ سکنہ فقیر کالونی شامل ہیں۔

خضدار یونیورسٹی کے ہاسٹل سے جبری گمشدگی کا شکار شہ میر بلوچ اور اس کے کزن مرتضیٰ بلوچ کو لاپتہ کردیاگیا۔ ضلع کیچ سے مزید تین نوجوانوں کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا گیاہے۔ حراست کے بعدلاپتہ ہونے والے نوجوانوں کی شناخت باسط ولد لشکران، سلمان ولد عبدالرسول اور گلزار سکنہ مند کے ناموں سے ہوئی ہے۔

لسبیلہ کے صنعتی شہر حب سے دو نوجوان طالب علموں کو حراست میںلے کر لاپتہ کردیاگیا۔ دونوں طالب علم حب ڈاکخانہ روڈ پر ایک دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں اغوا کرلیاگیا۔ دونوں طالب علموں کی شناخت زبیر زہری ولد سراج احمد اور عدنان مینگل ولد خدا بخش کے ناموں سے ہوئی ہے۔ جو کوئٹہ پولیٹکنک کالج کے طالب علم ہیں۔

سیاسی مبصرین نے لاپتہ افراد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو درپیش سب سے بڑا مشکل مسئلہ مسخ شدہ لاشوں اور لاپتہ افراد کا ہے اور اس مسئلے کا حل تلاش کیا جاناچاہیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ کوئی واقعہ کہیں ہوجاتا ہے تو دو آدمی چھوڑ دئیے جاتے ہیں اور دس کو اٹھالیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ بازیاب ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ لاپتہ ہوجاتے ہیں جس کافوری طور پر تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔اگر حکومت سمجھتی ہے کہ بعض لوگ جرائم میں ملوث ہیں۔ تو ان کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کو فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کیاجائے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرناان کے خاندانوں اورسماج کے لیے ایک غیر انسانی عمل ہے۔ جس سے متشدد، منقسم ،غیر صحت مند اورعدم رواداری پر مبنی سماج تشکیل پارہا ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کئے بغیر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ حالانکہ لاپتہ افراد نے کوئٹہ سے لیکر اسلام آباد تک مارچ کیا۔ دھرنے دیئے۔ قومی اور سینیٹ میں بھی آوازیں گونج اٹھی تھیں۔ وزیراعظم عمران کی یقین دھانی بھی کام نہیں آسکی۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وزیراعظم کے واضع احکامات بھی لاپتہ ہوگئے۔ جس کی مثال کچھ یوں ہے:

رواں سال فروری میں بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے ایوان صدر پاکستان، وزیراعظم ہاؤس اور عدالت عظمیٰ پاکستان کے چندگز کے فاصلے پر دھرنا دینے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ فیملیز نے تمام رکاوٹیں توڑ کر تختِ اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا۔ ڈی چوک ایک بڑا عوامی چوک ہے جو اسلام آباد میں جناح ایونیو اور شارع دستور کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ چوک کئی اہم سرکاری عمارتوں کے قریب ہے۔ جن میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، مجلس شوریٰ پاکستان اور عدالت عظمیٰ پاکستان شامل ہیں۔واضح رہے کہ اس سے قبل بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔دس روز سے ڈی چوک پر احتجاج کرنے والے لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے وزیر اعظم عمران خان سے مارچ کے مہینے میں ملاقات کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کر دیا تھا۔

رواں سال مارچ کے مہینے میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ایک وفد نے اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔تمام تر یقین دھانیوں کے باوجود ایک بھی لاپتہ شخص کی واپسی نہیں ہوئی۔
لاپتہ افراد کی بازیابی تک بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اداروں کو اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔اگرطالبان سے بات چیت ترجیح ہوسکتی ہے تو لاپتہ افراد کی واپسی اور بیرون ملک مقیم بلوچوں سے کیوں نہیں ہوسکتی؟