|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2021

سردار عطاء اللہ خان مینگل کے والد سردار رسول بخش خان مینگل طویل عرصہ سے بیلہ میں مقیم تھے جس کی وجہ سے مینگل قبیلہ کا پایہ تخت وڈھ بغیر سردار کے تھا۔فروری 1954ء میں مینگل قبیلہ کے معتبرین نے باہم مشورہ کیا اور سفید ریش مینگل کا وفد ترتیب دیا۔جھالاوان میں معتبرین کے نمائندہ وفد کے لئے سماٹا معتبراک کی اصلاح استعمال کی جاتی ہے۔مینگل قبیلہ کا یہ وفدلس بیلہ گیا اور سردار رسول بخش مینگل سے ملاقات کی اور انہیںمستقل طور پر وڈھ آنے کے لئے گزار ش کی۔سردار رسول بخش خان مینگل دلی طور پر وڈھ آنے پر آمادہ نہیں تھے ۔مینگل قبیلہ نے وڈھ نہ آنے کی صورت میں سردار رسول بخش مینگل کے سامنے تجویز رکھی۔اگر آپ وڈھ آنا نہیں چاہتے تو ہمیں اجازت دیں کہ سردار مینگل کی ذمہ داریاں عطاء اللہ خان مینگل کے سپر د کردیں۔اس تجویز پر سردار رسول بخش مینگل نے کہا کہ عطاء اللہ مینگل سرداری اور قبائلی معاملات میں نا تجزبہ کار ہے۔انہیں قبائلی معاملات میں دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔ سردار رسول بخش مینگل وڈھ آنے پر آمادہ نہیں ہوئے،مینگل معتبرین نے عطاء اللہ خان مینگل کو باقاعدہ طور پر وڈھ آنے کی دعوت دی، اس فیصلے کے چند دن بعد سردار عطاء اللہ خان مینگل وڈھ آئے ۔وڈھ میں مینگل قبیلہ کے معتبرین سے ملاقاتیں کیں۔قبیلہ کے ذیلی شاخوں کے ٹکریوں سے مشاورت کی۔

عطاء اللہ خان مینگل کی گفتگو، معاملہ فہمی کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ عطاء اللہ خا ن مینگل کی دستار بندی کی جائے گی۔اس زمانہ میں ریاست قلات ۔قلات اسٹیٹ یونین K.S.Uکا فیڈریشن تھا۔اس میں مکران،ریاست خاران،ریاست لس بیلہ شامل تھے اور قلات اسٹیٹ یونین کا آئینی سربراہ خان قلات تھا۔فوج ،کرنسی ،داخلہ ،خارجہ اموروفاق پاکستان کے پاس تھے دیگر معاملات میں ریاست قلات خود مختار تھا اس کا اپنا وزیراعظم تھا۔اس زمانہ میں ریاست قلات کے وزیراعظم یار محمد کھنڈ تھے۔مینگل قبیلے کے وفد نے فیصلہ کیا کہ سرداری کے سلسلہ میں وزیراعظم قلات سے ملاقات کی جائے گی۔
عطاء اللہ خان مینگل اپنے معتبرین ،معززین ودیگر100افراد کے وفد کے ساتھ قلات آئے تا کہ سرداری کے سلسلہ میں وزیراعظم سے ملاقات کی جائے۔وزیراعظم نے 100کے بجائے چیدہ 6افراد کے نمائندہ وفد سے ملاقات کی، مینگل قبیلہ کے نمائندہ وفد نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کی بطور سردار مینگل قبیلہ کے دستاربندی کے فیصلہ سے وزیراعظم کو مسٹر یار محمد کھنڈ کو آگاہ کیا۔وزیراعظم قلات نے مینگل قبیلہ کے فیصلہ کی حمایت نہیں کی۔وزیراعظم نے تاثر دیا کہ عطاء اللہ خان مینگل کی دستاربندی کے فیصلہ سے قبل مجھ سے مشورہ کیا جاتا ۔اس موقع پر مینگل نمائندہ وفد نے اپنے فیصلہ سے وزیراعظم قلات مسٹر یار محمد کھنڈ کو آگاہ کیا اور کہا کہ قبائلی روایات کے مطابق یہ قبیلہ مینگل کا حق ہے کہ وہ اپنے سردار کا انتخاب کرے۔مینگل قبیلہ کا فیصلہ وزیراعظم کو ناگوار گزرا۔انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور معاملے کو طول دینے کی خاطر وہ ایک ہفتہ کے لئے قلات کے سر مائی ہیڈکوارٹر ڈھاڈر روانہ ہوئے اور وفد سے کہا کہ ڈھاڈر واپسی پرمزید بات ہوگی۔

وزیراعظم نے طاقت کے اظہار کے طور پر وفد کے دیگر اراکین کو زیر حراست رکھا ۔ملاقات کے بعد عطاء اللہ خان مینگل نے سخت احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ زیر حراست معتبرین کو رہا کیا جائے ۔عطاء اللہ خان مینگل کے اصولی سخت موقف کے باعث وزیراعظم کو مینگل وفد کے اراکین کو رہا کرنا پڑا۔سردار عطاء اللہ خان مینگل اپنے وفد کے ہمراہ وڈھ لوٹ آئے۔ وزیراعظم نے انتقامی طور پر ناظم جھالاوان (اسسٹنٹ کمشنر جھالاوان) کے ذریعے سردار عطاء اللہ خان مینگل کو حکم دیا کہ وہ 48گھنٹوں کے اندر اندر وڈھ چھوڑ دیں۔عطاء اللہ مینگل نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرلیا اور پس پردہ ریشہ دوانیوں کو بھانپ گئے عطاء اللہ مینگل اپنے ماموں سردار بلوچ خان محمد حسنی کے ہاں جبری مشکے چلے گئے۔

وزیر اعظم قلات ڈھاڈر سے واپس آئے اور عطاء اللہ خان مینگل کو ملاقات کرنے کو کہا۔عطاء اللہ خان مینگل نے وزیراعظم سے ملاقات کی ۔وزیراعظم قلات یار محمد کھنڈ نے کہا کہ خان صاحب میر کرم خان مینگل بھی قبیلہ مینگل کا سردار بننے کے دعویٰ دار ہیں۔بلی تھیلے سے باہر آگئی ۔درحقیقت خان قلات میر کرم خان مینگل کو وزیراعظم کے ذریعہ سے عطاء اللہ مینگل کے مقابلہ میں مینگل قبیلہ کا سردار بنانا چاہتے تھے۔وزیراعظم قلات نے بذریعہ انتخاب سردار منتخب کرنے کا فیصلہ کیا اس انتخاب کے لئے مینگل قبیلہ کے تمام معززین میر اورٹکریوں نے رائے دہی میں حصہ لیا۔ میر کرم خان مینگل نے صرف7ووٹ حاصل کئے اور سردار عطاء اللہ خان مینگل نے 106ووٹ حاصل کئے اس طرح عطاء اللہ خان مینگل قبیلہ مینگل کے سردار بنے ۔سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان کے واحد سردار ہیں جو باقاعدہ انتخاب کے ذریعے جمہوری سردار بنے۔سرداررسول بخش مینگل خان قلات کی بہ نسبت جام لس بیلہ سے زیادہ قربت رکھتے تھے اور میر کرم خان مینگل خان قلات کے قریب تھے۔سردار رسول بخش مینگل جام غلام قادر محمد کے داماد تھے۔

1956ء :۔ مغربی پاکستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا زمانہ ہے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو ،سردار عطاء اللہ مینگل سے ملنیوڈھ گئے ۔ دیگر معاملات کے علاوہ سیاسی امور پر گفت گو ہوئی۔ میر غوث بخش بزنجو نے سردار عطاء اللہ مینگل کو انتخابات میں حصہ لینے کی تجویز دی۔سردار عطاء اللہ خان مینگل نے کہا مجھے انتخابات میں دلچسپی نہیں اس لئے مجھے ان جھمیلوں میں نہ ڈالیں۔میں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔اس موقع پر میر غوث بخش بزنجو نے کہا کہ’’میں بھی انتخابات میں حصہ لوں گا۔اس پر سردار عطا ء اللہ خان مینگل نے کہا اگر آپ انتخابات میں حصہ لیں گے تو پھر میں بھی انتخابات میں حصہ لوں گا۔یوں میر غوث بخش بزنجو کی تحریک پر سردار عطاء اللہ خان مینگل نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔سردار عطاء اللہ خان مینگل نے قلات کی نشست سے کامیابی حاصل کی اور مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔جھالاوان،کچھی ،نصیرآباد،ضلع قلات میں تھے۔قلات کی ایک نشست پر نواب غوث بخش رئیسانی منتخب ہوئے ،ایک سیٹ پر نواب محبوب علی خان مگسی، ایک سیٹ پر میر نبی بخش خان کھوسہ ، ضلع سبی سے نواب خیر بخش مری ، ضلع ژوب سے صالح محمد مندوخیل ،مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔مکران سے باقی بلوچ ممبر منتخب ہوئے بلوچستان کی 16نشستیں تھیں ۔

سردار عطاء اللہ خان ایک زیرک ، خوددار ، باوقار شخصیت تھے انہوں نے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی۔ قومی اسمبلی میں بھرپور انداز میں ایوبی آمریت کو للکارا ۔1969ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کیا، یحییٰ خان نے ون یونٹ کا خاتمہ کر کے صوبے بحال کئے۔ 1970ء کے عام انتخابات کا اعلان ہوا ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے۔ سردار عطاء اللہ مینگل پی بی 16 قلات 2سے ممبر منتخب ہوئے ۔ان انتخابات میں نیپ کو زبردست کامیابی ملی۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ نیپ کی حکومتیں قائم ہوئیں سرحد میں مولانا مفتی محمود، میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے گورنر مقرر ہوئے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل اور گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی کوشـشوں سے بلوچستان میں بولان میڈیکل کالج ، بلوچستان یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا بلوچستان بورڈ اور بلوچستان ہائی کے قیام میں بھی ان کی کوششیں شامل ہیں جو بعد میں بنا ئے گئے ۔

نیپ کی کامیابی اور اکثریت کے باعث بلوچستان میں حکومت تو قائم ہوئی مگر مرکز کا رویہ نامناسب تھا شروع دن سے مرکز صوبہ بلوچستان میں مداخلت کر کے نیپ حکومت کا راستہ روکنے اور بداعتمادی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا ۔وفاقی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم کی شہ پر بلوچستان پولیس نے ہڑتال کر دی تاکہ حکومت ناکام ہو اس موقع پر نیپ کے ورکرز اور بی ایس او کے نوجوانوں سے انتظامی معاملات سنبھالے حتیٰ کہ کوئٹہ میں ٹریفک کو بی ایس او کے ورکروں نے کنٹرول کیا ۔مرکز نے پٹ فیڈر اور لسبیلہ میں مقتدرہ کے ہمنوا اور جام غلام قادر کے ذریعے معاملات الجھانے کی کوششیں کیں۔ لسبیلہ میں نیپ نے معاملات سنبھالنے کیلئے دیہی محافظ کے ذریعے سے معاملات کو سنبھالا جسے مرکز نے قبائلی لشکر کشی کا نام دے کر نیپ حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کیا ۔بھٹو نے میر غوث بخش بزنجو کو ہٹا کر نواب محمد اکبر خان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کر دیا ۔

اس کے خلاف نیپ نے وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ خان مینگل کی قیادت میں باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے کوئٹہ جناح روڈ کے منان چوک پر ایک بڑا احتجاجی جلسہ منعقد کیا ۔ دوپہر ایک بجے جب اس احتجاجی جلسے سے سردار صاحب خطاب کر رہے تھے کہ اس موقع پر مشہور صحافی غلام محمد لغاری اور آغا عبدالظاہر احمد زئی بھی موجود تھے آغا عبدالظاہر ڈان ہوٹل میں ایک بجے کی خبریں سن رہے تھے جس میں اعلان کیا گیا کہ مرکز نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کی حکومت کو برطرف کر دیا ہے ۔آغا عبدالظاہر اور غلام محمد لغاری نے دوران تقریر سردار عطاء اللہ مینگل کو اس خبر کی چٹ پکڑا دی ۔اس پر سردار صاحب نے اپنی تقریر ختم کر دی ۔نیپ حکومت ختم کر کے بلوچ رہنمائوں پر غداری کے مقدمات قائم کئے گئے ۔ حیدر آباد سازش کیس بنایا گیا، نیپ کی تمام قیادت کو گرفتار کر لیا گیا۔ حیدر آباد سازش کیس میں تقریباً 500افراد شامل تھے۔ عزیز اللہ شیخ نیپ کے وکیل تھے ۔

پانچ جولائی1977ء میں ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا نواب محمد خان قصوری قتل کیس میں بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا، ضیاء الحق نے بھٹو دشمنی میں حیدر آباد سازش کیس ختم کر کے نیپ لیڈروں کو رہا کر دیا ۔نیپ پر پابندی کے باعث متبادل سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر سردار شیر باز مزاری نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کی ۔بیگم نسیم ولی خان بھی اس میں شامل تھیں این ڈی پی میں نیپ کارکنان شامل تھے ۔این ڈی پی کے جنرل سیکرٹری عابد زبیری تھے ۔سردار عطاء اللہ مینگل نے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اس پر این ڈی پی میں اختلافات پیدا ہوئے ۔ولی خان ، میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل کی راہیں جدا ہو گئیں ۔اور پھر پاکستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ۔کچھ عرصہ بعد سردار عطاء اللہ مینگل علاج کی غرض سے لندن چلے گئے اور طویل عرصہ تک جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے ۔

لندن میں قیام کے دوران سردار عطاء اللہ مینگل ، حفیظ پیرزادہ ، ممتاز بھٹو ، افضل بنگش نے سندھی، بلوچ ،پشتون فرنٹ کی بنیاد رکھی فرنٹ کا مقصد کنفیڈریشن کے طور پر جدوجہد کرنا تھا فرنٹ کوئی خاطر خواہ سیاسی کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔
1962ء میں جنرل ایوب خان کوئٹہ کے دورہ پر آئے 6 اگست 1962ء کو ایوب اسٹیڈیم میں مسلم لیگی جلسہ سے خطاب کیا ۔کیونکہ 5اگست 1962ء کو بلوچ سرداران نے مالی باغ فٹبال گرائونڈ میں ایوب خان کے خلاف ایک بہت بڑا جلسہ کیا۔ بلوچ رہنمائوں نے سخت تقاریر کیں اور لائوڈ اسپیکر کا رخ گورنر ہائوس کی طرف رکھا ۔اکبر بگٹی ، سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری نے زبردست تقریریں کیں ۔

ایوب خان کا 6اگست کا جلسہ اور تقریر دراصل 5اگست کے جلسہ کے جواب میں تھا۔ ایوب خان نے سخت غصیلے لہجے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نواب اکبر خان بگٹی کی سزائے موت معاف کر کے اسے نئی زندگی دی وہ آج میرے خلاف زبان درازی کر رہا ہے ۔7اگست کو بلوچ رہنمائوں نے دوبارہ جلسہ کیا اور انتہائی سخت تقاریر ایوب خان کے خلاف کیں، نواب اکبر خان بگٹی نے کہاکہ ایوب خان ایک بلوچ کو موت سے ڈراتا ہے ۔اس تقریر پر ایوب خان انتہائی سیخ پا ہوا ۔اس کے بعد بلوچ رہنمائوں نے 16 اگست1962ء کو لیاری کراچی کے ککری گرائونڈ میں ایک عظیم الشان جلسہ کیا اور ایوبی آمریت کے خلاف تقریریں کیں ،جلسہ کے بعد 17 اگست کو سردار عطاء اللہ مینگل کو ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا اور ملتان جیل منتقل کیا گیا ۔نواب اکبر خان بگٹی کو ان کے ہوٹل سے گرفتار کر لیا گیا ۔(جاری ہے)