خاران: اسلامک ریلیف کے زیراہتمام گورنمنٹ ڈگری کالج آڈیٹوریم میں “موسمیاتی تبدیلی میں نوجوانوں کا کردار ” کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد ہوا ،سیمینار سے نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر اسحاق بلوچ، آئی آر کے ایڈوکیسی آفیسر رضوان کاسی،پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج عبدالشکور گہرام زئی، ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر عالمگیر قمبرانی،زراعت آفیسر اعجاز احمد نوشیروانی،محمد علم قمبرانی جنرل سیکریٹری زمیندار ایکشن کمیٹی، ،سفرخان راسکوئی،ڈاکٹر ثنا کبدانی،اور آئی آر کے کمیونٹی ڈویلپمنٹ آفیسر فدا احمد کبدانی نے خطاب کیا، سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ عالمی موسم میں رونما ہونے والے تبدیلی کا سبب دنیا کے درجہ حرارت کا بڑھنا یا گلوبل وارمنگ ہے۔
عالمی درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی آبی چکر پر اثر انداز ہوتا ہے، چنانچہ کہیں شدید بارشوں کے سبب سیلاب آجاتے ہیں، اور کئی خشک سالی ڈیرے ڈال لیتی ہے،اگرچہ ترقی یافتہ صنعتی اقوام گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہیں،مگر موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر تیسری دنیا کی غریب اقوام ہورہے ہیں،کیونکہ درجہ حرارت سے گلیشیئر پگھل جائیں گے، دنیا کا درجہ حرارت پانچ درجہ بڑھنے پر کوہ ہمالیہ گلیشیئر سے پاک ہوجائیگا،جس کے نتیجے میں چین بھارت اور پاکستان کے کروڑوں افراد متاثر ہونگے،جہاں قلت آب پہلے ہی سنگین صورتحال اختیار کرچکی ہے،ورلڈ واٹر کونسل کے مطابق ہر بیس سال کے بعد پانی کی طلب دوگنی ہوجاتی ہے،مگر آبی ذخائر میں بجائے اضافے کے کمی واقع ہورہی ہے،طلب و رسد میں اسی میں اسی فرق کے باعث قلت آب سنگین عالمی مسئلے کی صورت اختیار کر گئی ہے،عالمی ادارہ صحت کے رپورٹ کے مطابق تین ارب کے قریب انسان قلت آب کا شکار ہیں،ان میں سے ایک ارب چالیس کروڑ کو پیاس بجھانے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے،عالمی ادارہ صحت کی کی پیش گوئی ہے کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو 2025 تک دو ارب نفوس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوگا،پانی کی سب سے اہم وجہ پانی کا بے دریغ استعمال بھی ہے،خاص کر بلوچستان میں زراعت کے معاملے میں ابھی تک زرعی حوالے سے پانی کی جو جدید استعمال کا طریقہ کار ہے،وہ رائج نہیں ہوسکا ہے۔
بلکہ وہی پرانا طریقہ کار ابھی تک چل رہا ہے،جس سے اکثر پانی ضائع ہوتی ہے،اسی طرح ہمارے ہمارے یہاں ابھی تک زراعت سے تعلق رکھنے والے علاقوں میں وہ شعور و آگہی بھی پیدا نہیں کی گئی ہے کہ جس سے یہ معلومات حاصل ہو کہ کونسا فصل کم اور کونسا زیادہ پانی پر حاصل کی جاسکتی ہے،خصوصا بلوچستان میں پانی کی کمی کو ایک سنگین بحران کے طور لیا جاتا ہے،بارشوں کی کمی اور مسلسل قحط سالی نے زرعی،گلہ بانی،اور مالداری جو کہ ہمارے لوگوں کا اکثریتی معاشی ذرائع ہیں،کو کافی نقصان پہنچایا اسی طرح بلوچستان کے میں کاریزوں کی تباہی سے صدیوں پرانا مستحکم اور متوازن نظام آبپاشی بھی ختم ہوگیا ہے،اسی طرح خاران کے یونین کونسل راسکوہ میں زراعت تو اپنی جگہ وہاں کے لوگوں کو پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے،جبکہ اسی پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں کے لوگ مجبورا اپنے آباواجداد کی ملکیت چھوڑ کر دوسرے شہروں کا رخ کررہے ہیں،خاران میں آلودہ پانی پینے کی وجہ سے لوگ ٹائی فائیڈ،ملیریا،ڈائریا،خون کی کمی اور گردوں کی خطرناک امراض کا شکار ہورہے ہیں،اس سنگین بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں رضاکارانہ طور پر اس حوالے سے اپنے سماج میں شعور وآگہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔