ماسی جماعتی کی سر پر ایک تھالی ہے جس میں وہ ٹافیاں، پاپڑ اور بسکٹ وغیرہ رکھ کر اسکول کے گیٹ پر بیٹھ کر تفریح کے وقت یہ چیزیں بیچتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ان کے بچے ان سے خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہے “ماشاء اللہ میرے دو بیٹے ہیں دونوں ماہی گیری کرتے ہیں، لیکن سمندر میں کبھی روزگار ہے تو کبھی بچے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔ اس لیے میں بھی یہ ٹافیاں وغیرہ یہاں آکر بیچتی ہوں تاکہ گزارا ہوجائے”۔ ماسی جماعتی اب سے کئی سال پہلے یہ تھالی سر پر اٹھانے اور ایسے سوداگری کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ ان کے بقول اس وقت سمندر آباد تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ “ہم سمجھتے تھے سمندر ہماری ماں ہے، ماں کبھی بھی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سلاتی مگر اب ہمارا سمندر ڈاکوئوں کے حوالے ہے” وہ غیر قانونی جالوں کے استعمال اور ٹرالر مافیا کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کہہ رہی ہیں کہ اب ان کی وجہ سے ماہی گیروں کے گھروں کے چولہے بْجھ چکے ہیں۔ اب تو سمندر کو بھی قحط سالی کا سامنا ہے۔
سلیمان بلوچ بھی ایک ماہی گیر ہے۔ وہ گوادر کے مغربی ساحل ‘پدی زر’ پر اپنے شکار کے جال کو ترتیب دے رہے ہیں۔ لیکن انھیں بھی یہ پتہ نہیں کہ انھیں شکار ملے گا بھی یا نہیں۔ سلیمان بتاتے ہیں کہ آج سے کئی سال پہلے مکران اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں کے لوگ روزگار کے لیے ساحلی شہروں کا رخ کرتے تھے کیونکہ یہاں سال کے بارہ مہینوں میں سمندر روزگار کے لیے کھلا ہوتا تھا۔ باقی علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوتی تھی مگر ہم ساحلی لوگ آباد تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں “اب ہمارے کئی ماہی گیر دوست روزگار کی تلاش میں بارڈر گئے ہیں تاکہ کوئی مزدوری کریں۔ سمندر تو بانجھ ہو چکا ہے۔ ایک دن روزگار ہے تو ایک ہفتے تک نہیں ہے۔ یہ جو ٹرالر ہیں یہ ہمارے سمندر کی نسل کشی کر رہے ہیں” سلیمان جذباتی ہوکر عوامی نمائندگان اور اداروں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول یہ سب ان کی ناکامی نہیں بلکہ ملی بھگت ہے۔سب ملے ہوئے ہیں۔
سمندر اور سمندری امور کی نگرانی کے لیے صوبائی ادارہ محکمہ فشریز موجود ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ غیر قانونی جالوں کا استعمال کرنے والا یہ گروہ اس قدر سمندری حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟
ٹرالرز کا غیر قانونی شکار، ممنوعہ جالوں کے استعمال اور مضبوط نٹ ورک کی وجہ سے مقامی ماہی گیر انھیں ٹرالرز مافیا کہتے ہیں۔
حال ہی میں گوادر کے حقوق کے لیے بننے والی عوامی تحریک ’’گوادر کو حق دو‘‘کے سربراہ و سیاسی شخصیت مولانا ہدایت الرحٰمن بلوچ بھی محکمہ فشریز کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ گوادر پریس کلب میں صحافیوں کے ساتھ ایک نشست میں مولانا نے انکشاف کیا کہ انھیں محکمہ فشریز کے ایک شخص نے بتایا ہے کہ اس وقت بھی گوادر کے سمندری حدود میں تقریباً کوئی ایک ہزار کے قریب ٹرالرز موجود ہیں۔ جنھیں ہم دو سو یا تین سو سمجھتے ہیں۔ اس سے پہلے ٹرالر مافیا اور سمندری کاروبار میں رکاوٹ ڈالنے کے خلاف مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے چار دن تک کوسٹل ہائی وے پر دھرنادیا تھا جس کے بعد سابقہ سیکریٹری فشریز حاجی اکبر آسکانی کوئٹہ سے ایک وفد کے ساتھ مذاکرات کرنے گوادر آئے تھے اور ان مذاکرات میں ٹرالر مافیا کے روک تھام کے لیے فوری طورپر اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ان بیانات پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ مولانا ہدایت الرحمٰن پندرہ نومبر سے دوبارہ گوادر پورٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا ہوا جس میں ان کا کہنا ہے کہ غیر معینہ مدت کے لیے مطالبات پورے ہونے تک دھرنا جاری رہے گا۔
محکمہ فشریز سے اس سلسلے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے گوادر میں کرایہ کے ایک مکان میں قائم ان کے دفتر میں سیجاننے کی کوشش کی گئی کہ آخر ٹرالر مافیا کے روک تھام کے سلسلے میں اب تک اس سال میں کتنے ٹرالرز پکڑے گئے ہیں؟
ایڈیشنل ڈائریکٹر محکمہ فشریز گوادر، اقبال عبداللہ بتاتے ہیں کہ 2021 میں اب تک گوادر اسٹیشن سے تین ٹرالرز غیر قانونی ماہی گیری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں اور ان سے تقریباً کوئی ایک سے دو ٹن کے قریب مچھلیاں وغیرہ برآمد کیے گئے ہیں۔ اب ان تینوں ٹرالرز کا مقدمہ کہاں تک پہنچا ہے؟ اقبال عبداللہ بتاتے ہیں کہ یہ کیسز اس وقت ہائی کورٹ میں ہیں کیونکہ جوڈیشل مجسٹریٹ گوادر نے انھیں رہا کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔ ان ٹرالرز مالکان سے متعلق محکمہ فشریز کا کہنا ہے کہ تینوں ٹرالرز کے مالکان کا تعلق کراچی سندھ سے ہے۔
بلوچستان کی سمندری حدود بارہ نارٹیکل میل ہے جس کے اندر غیر قانونی ماہی گیری پر پابندی ہے۔ لیکن اکثر یہ ٹرالرز مافیا اس قدر ساحل کے قریب آتے ہیں کہ جہاں نہ صرف یہ کھلے عام شکار کرتے ہیں بلکہ مقامی مائی گیروں کا شکوہ ہے کہ وہ ان پر حملہ بھی کرتے ہیں۔ ان کے جال کاٹ کر ساتھ لے جاتے ہیں اور ان پر ربڑ کی گولیاں، گرم پانی اور دوسرے اوزاروں کی مدد سے انھیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ مقامی ماہی گیروں کی چھوٹی کشتیوں کو ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے وہ اکثر و بیشتر بے بس ہوکر لوٹتے ہیں۔ گوادر میں چْربندر، شمال بندن، گنز اور کلمت کے ماہی گیروں کے کئی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں ٹرالرز مافیا مقامی ماہی گیروں پر حملہ کر رہے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ماہی گیر ان ٹرالرز کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں بتاتے ہیں لیکن پورے سال میں صرف تین پکڑے جاتے ہیں؟
رفیق بلوچ ایک مائی گیر ہے۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ ٹرالرز کسی عام شخص کے نہیں ہیں جو پکڑے جائیں یہ بڑے بڑے لوگوں کے ہیں اور ان کے ساتھ تمام ادارے ملے ہوئے ہیں۔ وہ ماہی گیر نمائندوں پر بھی الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں “یہ نمائندے وغیرہ ہمارے سامنے ہمارے ہیں اور ان بڑے لوگوں کے سامنے ان کے بندے ہیں۔ ان لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا تاکہ ہم ماہی گیر خود سے متحد نہ ہوسکیں۔ یہ سب سیاستدان اور ادارے ملے ہوئے ہیں۔ انھیں غریب ماہی گیر کی فکر نہیں ہے بس اپنے بینک بیلنس کا فکر ہے”
محکمہ فشریز کا ایک ملازم بھی رفیق بلوچ کی باتوں سے ایک حد تک اتفاق کرتے ہیں۔ وہ اپنا شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ٹرالز کا معاملہ اتنا آسان اور سادہ نہیں ہے۔ وہ سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ “یوں سمجھیں کہ جب یہ گڈانی کے حدود میں بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں تو ہر علاقے میں ان کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ اور یہ نٹ ورک ایک اسٹیشن سے تحصیل، پھر ضلع اور کوئٹہ و شاید اسلام آباد تک قائم ہے۔ ان کی روک تھام کے لیے کوئی ایک گشت کرنے والا ٹیم یا محکمہ کی مثال ایسے ہے جیسے سمندری موجوں کے سامنے ایک کاغذ کی کشتی” ان کے بقول ایک تو محکمہ فشریز کے پاس کوئی قانونی ماہرین کی ٹیم موجود نہیں ہے۔ بالفرض اگر کسی اسٹیشن میں گشت کرتے وقت غیر قانونی ٹرالرز کو پکڑنے کی کوشش کی جائے پہلے تو اس ٹیم کو ایک ایک گولی کا حساب دینا ہوگا اور انھیں صحیح سلامت گرفتار کرکے ٹرالر مچھلیاں سمیت ضبط کرنا ہوگا۔ اس کے بعد اگر اوپر سے کوئی حکم نہیں آیا اور کیس عدالت تک گیا تو اسی ٹیم کو بار بار پیشیوں پر جانا ہوگا جہاں ایک طرف ایک انتہائی قابل وکیل اور دوسری طرف ایک مجبوراً لیا ہوا سرکاری وکیل ہوگا۔ ٹرالر مافیا کے وکیل کے سوالات اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا اس فشریز ٹیم کے سربراہ کو اپنے دم پر کرنا ہوگا۔ ایسے میں نہ صرف وہ کیس جیت جاتے ہیں بلکہ محکمہ فشریز کو بعض دفعہ تو جرمانا بھی دینا پڑتا ہے۔ ان کے بقول ایسے میں کوئی بھی بندہ اس جنجال میں پھنسنے کی کوشش کیوں کرے گا؟
محکمہ فشریز کے اس ملازم کے بقول کئی بار تو یہ بھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بڑے ادارے اس صوبائی محکمہ کا چارج بھی اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں جس کے لیے انھیں مقامی تعاون بھی حاصل ہے تاکہ وہ اس محکمہ کو بدنام کریں۔
چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا کے دورہ گوادر کے موقع پر علاقائی نمائندگان، سرکاری اداروں کے افسران اور بدھ 3 نومبر کو تحصیل جیونی میں عوامی کھلی کچہری میں گوادر کے مختلف مسائل سے متعلق اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ چیف سکیریٹری نے عوامی مسائل کو سن کر انھیں جلد حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی لیکن شاید عوام اور ماہی گیری سے وابستہ لوگ ایسے بیانات سے مطمئن نہیں ہیں۔
ضلع گوادر کی اکثر آبادی کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ لیکن حالیہ گوادر پورٹ کے کاموں اور ٹرالرز مافیا سے مقامی ماہی گیروں میں احساس کمتری نے جنم لیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ شاید مستقبل میں ان کے سمندر جانے پر بھی پابندی ہوگی۔ ایسے میں ان کی شکایات کا ازالہ کرنا حکومت وقت کے لیے ضروری ہے اور محکمہ فشریز کو مزید با اختیار کرنا چاہیے تاکہ وہ سمندری حیات و سمندر کی حفاظت کرنے میں ایک خود مختار ادارہ بن سکے۔