تربت: نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری ریسرچ اینڈ ایڈوکیسی، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق چیرمین اور بلوچستان حکومت سے ریٹائرڈ سیکریٹری ڈاکٹر کہور خان بلوچ نے گزشتہ روز کراچی یونیورسٹی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے زیراہتمام منعقدہ لکچر پروگرام بعنوان ‘‘افغانستان کے تغیر پزیر حالات اور بلوچستان پر اثرات’’ میں شریک طالب علموں کے اجتماع کو لکچر دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں 17ویں اور 18ویں صدی کے دوران اس خطے میں صفوی سلطنت، مغل سلطنت، عثمانیہ سلطنت اور درانی سلطنت کے ادوار میں بلوچستان اپنی قومی شناخت اور ریاستی استحکام کے لئیے جدوجہد کرتی ہوئے نظر آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوموں کی غیر فطری جغرافیائی حدبندیاں دنیا کے امن کے لئے ایک مستقل مسئلہ ہے، مہذب دنیا کی جانب سے اس سنگین نوعیت کے مسئلہ کو ایڈریس کرنے تک عالمی امن کے سامنے ایک مستقل خطرہ سراٹھائے ایستادہ ہوتا رہے گا۔ انہْوں نے کہا کہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہوء نظر آتی ہے کہ بلوچستان کا جس قدر گہرے، برادرانہ اور دوستانہ تعلقات افغانستان کیساتھ رہے ہیں اسکا موزانہ خطے میں موجود بلوچستان کے کسی بھی ہمسائیہ ریاست یا قوم سے نہیں کیا جاسکتا، بلوچستان اور افغانستان ایک دوسرے کیساتھ گہرے سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی، عسکری اور جغرافیائی رشتوں سے بندھے ہوئے ہیں جوکہ صدیوں پر محیط تاریخی پس منظر رکھتی ہیں ، ایسے میں کسی بھی قومی وحدت کے اندر وقوع پزیر تبدیلی کا دوسرے وحدت کے اندر اثرانداز ہوناعین فطرت ہوگا۔ انہْوں نے کہا کہ انگریز استعمار نے زار روس کا راستہ روکنے کے لئیے دو افغان جنگوں کے بعد ہمارے خطے میں ڈیورنڈ لاہن اور گولڈسمتھ لائن کے نام سے دو غیر فطری لکیریں کھینچ کر افغانستان اور بلوچستان کے قومی وحدتوں کا شیرازہ بکھرنے کا سامان فراہم کیا، جس سے نہ صرف افغانستان اور بلوچستان ناقابل تلافی نقصانات سے دوْچار ہوئے بلکہ یہ غیر فطری جغرافیائی تفسیم خطے سمیت دنیا کے لئیے سیاسی طور پر دردسر کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
انہوں نے کہا جس دن ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی اْس دن سے لیکر آج تک افغانستان کی مختلف حکومتوں اور افغان عوام نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد افغانستان کی اْس وقت کی حکومت نے اقوام متحدہ میں اس اعتراض کیساتھ پاکستان کے ریاستی وجود و شناخت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ اسکے تاریخی علاقے پاکستان میں بزور شامل کئیے گئیے ہیں۔ انْہوں نے کہا سالانہ کروڑوں ڈالرز خرچ کرنے کی نسبت جب امریکہ کو یہ بہترین آپشن حاصل کرنے کا موقع مْلا کہ وہ نئے اتحادی کی توسط سے اپنا ایک ڈالر خرچ کئیے بغیر اور اپنے فورسز کے جوانوں کی زندگیاں ضاہع کئیے بغیر اپنے مفادات کی اس جنگ کو آگے بڑھا سکتا ہے تو اْس نے ہر عقلمند کیطرح اس آپشن کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی سربراہء میں عالمی اسٹبلشمنٹ کیساتھ ملکر افغانستان کو اپنے نئے پارٹنر کے سپرد کیا۔ انْہوں نے کہا آج افغانستان اس نہج پر کھڑا ہے جہاں اسکے سامنے دو واضع راستے کھلتے ہیں اگر افغانستان میں بسنے والے تمام لسانی گروہوں اور قومیتوں کو اقتدار میں شراکت نہ دی گء اور جمہوری اور انسانی اقدار کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا تو ایک بدصورت خانہ جنگی اپنی باہئیں کھول کر افغانستان کو گلے سے لگانے کے لئے بے چین کھڑا ہے۔
اگر ایسا ہوا تو افغانستان اپنی تاریخ کے بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوگا اور یہ آگ صرف افغانستان کے جغرافیائی حدود کے اندر مقید نہ ہوگی بلکہ اس خطے کو تاریخ کے بدترین انسانی المیہ سے دوچار کرنے کیساتھ ساتھ عالمی امن کے بگاڑ کے لئیے مستقل ایندھن فراہم کرتا رہے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مہذب دنیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس نازک صورتحال میں افغان عوام کو حالات کے رحم و کرم پر تنہا نہ چھوڑیں بلکہ آگے بڑھتے ہوئے مستقبل کے انسانی المیہ کے جنم سے قبل اسکے سدباب کے لئیے موثر اقدامات اٹھاہیں تاکہ افغان عوام کو اپنی سرزمین پر انسانی اور جمہوری اقدار و حقوق کے حامل آبرومندانہ قومی زندگی بسر کرنے کا موقع میسر آسکے اور اسکے ساتھ ساتھ یہ خطہ اور دنیا امن و امان کے کسی بڑے سنگین صورتحال سے دوچار ہونے سے بچ سکے۔ لکچرکے اختتام پر سوال جواب کا سیشن بھی رکھا گیا تھا، اس موقع پر طلباء نے اسپیکر سے مختلف نوعیت کے علمی، سیاسی و تاریخی سوالات پوچھے ، لکچر پروگرام میں نظامت کے فراہض بی ایس او (پجار) کے رکن سینٹرل کمیٹی ظریف دشتی نے سرانجام دئیے جبکہ نیشنل پارٹی کے رکن مرکزی کمیٹی معمد جان دشتی، کارکناں حلیم بلوچ ، زبیر رحمان اور چاکر علی اسپیکر ڈاکٹر کہور خان بلوچ کے ہمراہ تھے۔