|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2021

قارئین کرام۔تیلی کا بیل ایک آدمی بہت بڑا سائنس داں تھا، سائنسی تحقیق کے سلسلے میں کسی سفرپر تھا، راستے میں ایک قصبہ آیا وہاں اس نے دیکھا کہ ایک کولہو چل رہا ہے اور لکڑی کے ستون میں سے تیل نکل رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا، سوچنے لگا کہ یہ کیسی مشین ہے؟ کولہو میں جو بیل چل رہا تھا اس کے گلے میں گھنٹی بندھی ہوئی تھی۔

سائنس داں نے تیلی سے پوچھا کہ اس بیل کے گلے میں گھنٹی کیوں باندھ رکھی ہے۔ تیلی نے جواب دیا ہم کبھی گھر چلے جاتے ہیں یا کسی گاہک سے بات کرنے لگتے ہیں تو بیل چلتے چلتے کبھی کھڑا ہو جاتا ہے، تو گھنٹی بجنا بند ہو جاتی ہے۔ جس سے ہم سمجھ جاتے ہیں کہ بیل رک گیا ہے چل نہیں رہا ہے، تو ہم دور ہی سے آواز دیتے ہیں چل چل، ہٹ ہٹ تو وہ پھر چلنے لگتا ہے۔ سائنس داں نے کہا اگر بیل چلے نہیں اور کھڑے کھڑے صرف اپنا سر ہلاتا رہے، جس کی وجہ سے گھنٹی بجتی رہے تو پھر کیا ہوگا؟ اس تیلی نے کتنا اچھا جواب دیا، تیلی بولامحترم یہ آپ کے جتنا پڑھا لکھا نہیں ہے ورنہ یہ بھی کرتا۔ اس طرح کی حرکتیں اور بے ایمانیاں زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہی کرتے ہیں۔

مذہبی جھگڑے ہوں یا سیاسی اکثر اس کے بانی مبانی پڑھے لکھے ہی ہوتے ہیں۔ اس طرح فریب، دھوکہ دہی اور نفاق بھی اکثر پڑھے لکھے لوگوں ہی میں پایا جاتا ہے۔ جاہل آدمی اکثر سیدھا سادہ اور بھولا بھالا ہوتا ہے۔ اسی لیے اکابر فرماتے ہیں کہ پڑھنے کے بعد کسی شیخ کامل سے وابستہ ہو کر روحانی بیماریوں کا علاج کرا لینا چاہیے تاکہ صلاح اور ورع پیدا ہو جائے اور دل اخلاق رذیلہ سے پاک ہو کر اخلاق حمیدہ سے متصف ہو جائے۔کیونکہ صرف تعلیم یافتہ ہونے سے ہم ترقی نہیں پا سکتے ہیں روحانی بیماریوں کا بھی کچھ علاج درکار ہے تاکہ ہمارے روحوں پہ غیر مذہبی اشخاص کی چال چلن اغیز نہ کرسکے۔اسکی واضح مثال تفصیل سے لکھنا چاہتاہوں کہ انگریزوں نے کس طرح برصغیر میں ناخواندگی/جہالت کو فروغ دیا؟سو فیصد خواندہ خطے کو کیسے جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا گیا؟

انگریزی کی تلوار سے کیسے عوام کا قتل عام کیا، گیا؟انگریز نے 1849ء میں جب پنجاب پر قبضہ کیا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے اس وقت پنجاب میں شرح خواندگی سو فیصد تھی۔ انگریز اس صورت حال کو خطرناک سمجھتا تھا چناں چہ یہ لوگ کنگز کالج لندن کے ایک نوجوان پروفیسر گوٹلیب ولیم لیٹنر کو لاہور لے آئے‘ لیٹنر بھی ایک عجیب وغریب کردار تھا‘ یہ 50 زبانیں جانتا تھا‘ عربی‘ ترکی اور فارسی مقامی لوگوں کی طرح بولتا تھا‘ کچھ عرصہ ’’مسلمان‘‘ بھی رہا تھا۔اس نے داڑھی بڑھا کر اپنا نام عبدالرشید سیاح رکھا اور تمام اسلامی ملکوں کی سیاحت کی‘ وہ مسجدوں میں نماز تک پڑھ لیتا تھا‘ وائسرائے نے اسے ہندوستان بلایا اور اسے پنجاب کا نظام تعلیم بدلنے کی ذمہ داری سونپ دی‘ لیٹنر نے پنجاب کا دورہ کیا اور وائسرائے کو لکھا‘ مجھے پڑھے لکھے پنجاب کو جاہل بنانے کے لیے 50سال درکار ہوں گے‘ وائسرائے نے اسے 50سال دے دئیے‘ اسے انسپکٹر جنرل آف سکولز پنجاب بنا دیاگیا۔ لیٹنر کو گورنمنٹ کالج لاہورکا پرنسپل بنا دیا گیا۔اس نے آگے چل کر پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی‘ یہ ان دونوں اداروں کا ابتدائی سربراہ تھا‘ انگریز نے پنجابیوں کو غیر مسلح اور ان پڑھ بنانے کے لیے پنجاب میں ’’ہتھیار جمع کرائیں اور حکومت سے تین آنے لے لیں اور عربی‘ سنسکرت اور گورمکھی کی کتاب دیں اور چھ آنے وصول کر لیں‘‘ جیسی سکیم بھی متعارف کرا ئی اور پورے پنجاب سے کتابیں اور اسلحہ جمع کر لیا ‘ انگریز نے اس کے بعد انگریزی زبان کو سرکاری اور دفتری زبان بنا دیا اور سکولوں کو عبادت گاہوں سے الگ کر دیا۔

جاگیر داروں اور زمین داروں کے بچوں کو انگلش میڈیم تعلیم دے کر متوسط طبقے کو دبانے کی ذمہ داری بھی دے دی گئی ‘ انگریزوں کو سمجھ دار‘ قانون پسند اور انصاف کا پیکر بنا کر پیش کرنا بھی شروع کر دیا گیا‘ دھوپ گھڑی پر پابندی لگا دی گئی اور مقامی زبانوں اور کتابوں کو جہالت کا مرکب قرار دے دیا گیا۔ ولیم لیٹنر کا منصوبہ کام یاب ہو گیا اور اس نے 50 کی بجائے 30 برس میں پورے پنجاب کو غیرتعلیم یافتہ اور جاہل بنا دیا‘۔لیٹنر نے اپنے ہاتھ سے لکھا’’ میں نے پورے پنجاب کا دورہ کیا۔آج یہاں کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں‘‘ اس نے سیالکوٹ کے ایک گائوں چوڑیاں کلاں کی مثال دی‘ اس کا کہنا تھا‘ میں پنجاب آیا تو اس گائوں میں ڈیڑھ ہزار پڑھے لکھے لوگ تھے‘ آج یہاں صرف 10لوگ گورمکھی اور ایک اردو پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی چند برسوں میں مرکھپ جائیں گے‘ لیٹنر نے پنجاب میں رہ کر اردو سیکھ لی اور پھر اردو میں دو والیم کی تاریخ اسلام لکھی‘یہ کتاب 1871ء اور 1876ء میں دو بار شائع ہوئی۔ لیٹنر 1870ء کی دہائی میں اپنا کام مکمل کر کے برطانیہ واپس چلا گیا۔اور بقیہ سسٹم چلانے کیلئے یہاں اپنا ناسور چھوڑدیا جو آج تک نسل درنسل منتقل ہوتاجارہاہے۔