کوئٹہ: نیب بلوچستان نے حبیب بنک کمپلیکس برانچ کوئٹہ کے دوسابق افسران مجید ساجد اور محمد سلیم عباسی کے خلاف اپنی نوعیت کے منفرد کیس کی کاروائی مکمل کرتے ہوئے ایک کروڑ روپے کی خوردبرد کی گئی رقم پلی بارگین کی صورت میں وصول کرلی۔ ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو بلوچستان میجر ریٹائرڈ طارق محمود ملک نے وصول شدہ رقم کی پہلی قسط مبلغ اٹھائیس لاکھ ستاون ہزار پانچ سو روپے کا چیک ریجنل چیف حبیب بینک کمپلیکس برانچ کوئٹہ اعجاز احمد کو آج نیب بلوچستان ریجن میں ایک سادہ مگر پروقار تقریب کے دوران حوالے کردیا۔ نیب ترجمان کے مطابق مطابق حبیب بینک کوئٹہ کے کیشئر مجید ساجد اور محمد سلیم عباسی باہمی ملی بھگت سے مذکورہ بینک کے کھاتوں سے بھاری رقوم خوردبرد کرکے سرمایہ کاری کررہے تھے۔ کیس کے مرکزی مجرم مجید ساجد کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ بینک کے صارفین سے رقوم لے کر ان میں کچھ رقم سرمایہ کاری کے لئے الگ کرلیتا تھا جس میں مذکورہ بینک کا والٹ کیشئر محمد سلیم عباسی اس کا معاون اور سہولت کار کا فریضہ انجام دیتا رہا بلکہ بدلے میں کمیشن اور رشوت کی مد میں پیسے وصول کرتا رہا۔ رقم کی خورد برد کا عقدہ اس وقت کھلا جب مجرم مجید ساجد کا ٹرانسفر حبیب بینک کینٹ برانچ میں ہوا اور ایک کروڑ کی رقم بینک سے غائب پائی گئی۔ بینک کی اندرونی تحقیقات کے بعد جب سارا الزام سلیم عباسی پر آیا تو اس نے نیب بلوچستان کو درخواست دائر کی ۔ نیب بلوچستان کے افسران نے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ملزمان کو گرفتار کیا بلکہ پلی بارگین کی صورت میں غبن شدہ رقم بھی وصول کرکے متعلقہ بینک کے افسر کے حوالے کردی۔ ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان میجر ریٹائرڈ طارق محمود ملک نے اس موقع پر اس عزم کا اعادہ کیا کہ نیب معاشرے سے بدعنوانی کے خاتمے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کے ہرفرد کو آگے بڑھ کر کرپشن کے عفریت کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ریجنل چیف حبیب بینک کمپلیکس برانچ کوئٹہ نے نیب بلوچستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو کی انتھک کوششوں کی بدولت بینک کی لوٹی ہوئی رقم واپس مل سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو کے شعوروآگاہی کے پروگراموں کی وجہ سے لوگوں میں بدعنوانی کے خلاف شعور پیدا ہوا ہے جو معاشرے کی درست سمت متعین کرنے میں معاون ہے۔ واضح رہے کہ قومی بیورو، نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی آرڈیننس 1999ء کے سیکشن 25 کے تحت ملزمان سے پلی بارگین کی صورت میں رقم وصول کی گئی ہے۔ پلی بارگین ایک قانونی سزا ہے جس میں ملزم قومی خزانے میں رقم جمع کرانے کے بعد مجرم تصور کیا جاتا ہے اور نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور مزید یہ کہ وہ دس سال تک کسی سرکاری عہدے، بینک سے قرضے اور عوامی عہدے کے حصول سے نااہل قراردیا جاتا ہے، مذکورہ کیس میں بھی مجرم دس سال تک سرکاری عہدوں بینک سے قرضوں اور عوامی عہدے کے لئے نااہل قراردیئے گئے ہیں۔