|

وقتِ اشاعت :   November 24 – 2021

گوادر کا تحصیل جیونی جسے مقامی طورپر جیمڑی کہا جاتا ہے اپنے محل وقوع کی وجہ سے بلوچستان کا امیر ترین علاقہ ہے۔ ایرانی سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہاں سرحدی کاروبار، ڈیزل اور سمندری راستے سے سال بھر میں سمندری و خشکی کے راستے تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن یہ وہ بدقسمت شہر ہے جہاں کے باشندوں کو پانی مانگنے پر گولیاں ملی ہیں۔ بقول مقامی لوگوں کے کہ یہاں ڈیزل تو آسانی سے مل جاتا ہے مگر پانی نہیں ملتا۔ جیونی میں آج سے تیس سال پہلے پانی کے لیے احتجاج کرنے پر لوگوں پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ اس واقعے میں تین معصوم شہری ہلاک ہوئے تھے۔ آج بھی قوم پرست جماعتیں ہر سال اکیس فروری کو شہدائے جیونی کا دن مناتی ہیں مگر انہی قوم پرستوں کی جماعتیں کئی مرتبہ وزارتوں میں آئی ہیں، حکومتوں کے ساتھ رہے ہیں یا اسمبلیوں میں موجود رہی ہیں لیکن پھر بھی جیونی کو پانی نہ مل سکا۔

جیونی کو آنکاڈہ ڈیم سے پانی سپلائی کیا جاتا ہے جس سے جیونی شہر سمیت آس پاس کے درجنوں دیہاتوں کوپانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ ان دیہاتوں میں شے آباد، بندری، اوکار، پانوان،گنز، دِر، بندی، خرگوشکی، روبار، پرائیں توک اور پلیری شامل ہیں۔ یہ سپلائی لائن تقریباً کوئی پچیس سے تیس سال پرانی ہے۔ ان دیہاتوں کے علاوہ اب آبادی میں اضافے اور مختلف سیکیوریٹی اداروں کے کیمپس کو بھی اسی پائپ لائن سے پانی مہیا کیا جاتا ہے۔
رخسانہ صرف پانچویں جماعت تک پڑھ سکی ہیں۔ انھوں نے بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنا اسکول چھوڑ دیا ہے کیونکہ اگر وہ اسکول جاتی تو پانی کون لاتا؟ رخسانہ اور ان کے محلے کی دوسری لڑکیاں اکثر پانی کی تلاش میں سروں پرہانڈیاں اور برتن لیے کئی کئی گھروں کا چکر لگاتی ہیں۔ کوئی انھیں ایک برتن پانی دیتا ہے تو کوئی اپنی مجبوریاں سنا کر دروازے نہیں کھولتا۔ وہ کہتی ہیں “میں بھی پڑھنا چاہتی تھی لیکن جب بنیادی ضرویات ہی نہیں ہونگی، انسان ایک برتن پانی کے لیے دربدر ہو تو کہاں سے پڑھے”

ایڈوکیٹ سعید فیض ایک سماجی و سیاسی کارکن ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جیونی کے پانی کے مسئلہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تحصیل جیونی کے عوام طویل عرصے سے پانی کی قلت و عدم دستیابی سے دوچار ہیں۔ مگر کوئٹہ و اسلام آباد والوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ “سال 1987 کو 21 فروری کے دن بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی ریلی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فائرنگ کی تھی جس میں تین معصوم شہری شہید ہوئے تھے۔ مذکورہ جلوس میں شریک یہ لوگ پانی کے حصول اور بجلی کی سہولت مانگنے پر شہید کیے گئے تھے۔” وہ کہتے ہیں کہ تین دہائی گزر گئے مگر اب بھی جیونی کے باشندوں کی قسمت نہیں بدل سکی۔ آج بھی جیونی کے لوگ بنیادی سہولیات کے لیے فریادی ہیں مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔

اس بابت جب متعلقہ ادارہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ گوادر سے جیونی میں دہائیوں سے جاری پانی کے مسئلہ سے متعلق آئین پاکستان کی اظہار رائے کی آزادی اور معلومات کی شہریوں تک رسائی کی قانون کے تحت ایک آر ٹی آئی فائل کی گئی تو دو ہفتوں تک گوادر میں محکمہ کے دفتر میں آر ٹی آئی کی کاپی پڑی رہی مگر وہ کسی افیسر تک نہ پہنچ سکی۔ چیف اگزیکٹو کے دفتر سے معلوم ہوا کہ جیونی کا ایس ڈی او جناب شہاب بلوچ ہیں تو ان کے وٹس ایپ نمبر پر بھی آر ٹی آئی کی ایک کاپی بھیج دی گئی جس کے جواب میں اوکے تو آسکا مگر جوابات نہ مل سکے۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرئنگ کے دفتر میں موجود ملازمین کا کہنا تھا کہ کوئی بھی آفیسر دفتر نہیں آتا۔ جسے دو ہفتوں میں مسلسل کئی بار چکر لگانے سے بھی دیکھا گیا کہ کوئی بھی ایسا آفیسر موجود نہیں تھا جو ان سوالات کے جوابات دے سکتا کہ جیونی میں بچھائے گئے پانی کے سپلائی لین کتنے پرانے ہیں اور سالانہ ان کی بحالی کے لیے کتنا بجٹ آتا ہے۔

ایس ڈی او جیونی شہاب بلوچ نے فون پر بتایا کہ ان کی طرف سے جوابات کا نہ آنا اصل میں ان کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ وہ صرف اپنے متعلقہ افیسرز کے جوابدہ ہیں۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ اس آر ٹی آئی کو یہاں کی بجائے کوئٹہ میں فائل کرنا چاہیے۔
ایڈوکیٹ سعید فیض کے مطابق جیونی کو پانی کی فراہمی کے لیے سپلائی سسٹم پرانی ہوچکی ہے۔ نئے پائپ لائنز بچھانے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں “مشینیں نئی خریدنے چاہییں ،نئی پائپ لائن بچھائی اور اسٹوریج ٹینکیاں بنائی جائیں مگر اداروں کو شکایت ہے کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں”۔
وہ کہتے ہیں کہ 2021 کو 90 کروڑ کا سکیم تھا مگر شامل نہیں کیا گیا۔ اب چیف سکریٹری بلوچستان نے یہاں دورہ کرکے کہا ہے کہ مسائل جلد حل ہونگے کیونکہ 8 کروڑ کی منظوری ہوچکی ہے مگر سعید کو لگتا کہ ان 8 کروڑ سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئے گی۔

نورمحمد ایک مائی گیر ہیں۔ وہ پانی بحران کا ذمہ دار محکمہ پبلک ہیلتھ اور علاقائی نمائندوں کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں “وال مین ٹینکر مافیا کے ساتھ ملے ہیں اور جان بوجھ کر پانی نہیں دیتے تاکہ عوام مجبور ہوکر ٹینکروں سے پانی لیں۔ لیکن دس پندرہ ہزار کا ٹینکر اس مہنگائی میں کون لے سکتا ہے؟” نورمحمد سمجھتے ہیں کہ علاقائی نمائندے ان کے پانی کے بجٹ کو کھاتے ہیں اس لیے یہ مسائل حل نہیں ہوتے۔
ایڈوکیٹ سعید فیض بھی سمجھتے ہیں کہ علاقے سے منتخب اسمبلیوں کے اراکین جیونی میں پانی کے مسئلے کو حل نہ کرا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ”جیونی میں پانی کے بحران کو حل کرانے میں نمائندے بھی ناکام رہے ہیں۔ اس کے وجوہات جو بھی ہوں مگر جیونی میں الیکشن کے جلسوں میں ان کا مین ایجنڈہ جیونی میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کا تھا جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا”

سابقہ تحصیل چیئرمین منظور قادر بخش کے مطابق جیونی میں پانی بحران کی ایک بڑی وجہ آنکاڑہ ڈیم سے جیونی کا فاصلہ ہے جو کافی دور ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے بقول آبادی کے ساتھ سپلائی لائن میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں “جیونی شہر کے ساتھ تقریباً کوئی بیس سے زائد دیہات اسی سپلائی لائن کے ساتھ جڑے ہیں۔ اور کئی سیکیوریٹی چیک پوسٹوں کو بھی اسی سے پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ لمبائی اور فاصلے کی وجہ سے جیونی تک پانی نہیں پہنچ سکتا ہے۔ اسی لیے جیونی شہر سب سے زیادہ متاثر ہے” منظور مزید کہتے ہیں کہ جیونی شہر کے اندر اسی سپلائی لائن کے باون برانچز ہیں جن میں سے روزانہ صرف دو برانچز کو پانی دیا جاتا ہے جس سے اندازہ لگایا جائے کہ باونویں برانچ کی باری کتنے دن بعد آتی ہے۔ منظور قادربخش سپلائی لائن کے ساتھ ساتھ محکمہ پبلک ہیلتھ کو بھی ایک غیر ذمہ دار ادارہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیونی میں پانی بحران کی وجوہات میں سے محکمہ پبلک ہیلتھ کی نااہلی بھی شامل ہے۔

کیونکہ اکثر محکمہ کے افسران کبھی جنریٹرز کی خرابی کا کہتے ہیں تو کبھی فیول نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہیں جس سے مزید پانی کی سپلائی میں رکاوٹ آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کی حکومت میں انھوں نے مشورہ دیا تھا کہ جیونی کو پلیری اسٹیشن سے براہ راست جوڑا جائے تاکہ بیچ کے دیہاتوں کا کنکشن الگ ہو۔ اس کنکشن سے روزانہ کی بنیاد پر جیونی کو دو سے ڈھائی لاکھ گیلن پانی مل سکتا ہے۔ لیکن وہ گلہ کرتے ہیں کہ سوائے بیانات کے اب تک بجٹ میں ایسا کوئی منصوبہ شامل نہیں کیا گیا ہے۔
جیونی میں دیرینہ پانی کے مسائل کا حل نہ ہونے کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں مگر ان میں سے ایک وجہ محکمہ پبلک ہیلتھ گوادرکی نا اہلی بھی ہے جس کا واضح تجربہ اس اسٹوری کو مکمل کرتے وقت ہوا۔