تنظیموں کو شخصیات بناتی ہیں۔ وہی تنظیمیں معاشرے میں اشخاص بناتی ہیں۔ تنظیم سازی اور شخصیت سازی کا رشتہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزم ہوتا ہے جس سے معاشرے میں ایک شعوری عمل شروع ہوجاتا ہے۔ فرد کا معاشرے کے ساتھ ایک کمٹمنٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ بلوچ معاشرے کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ انہیں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی طلبہ تنظیم مل گئی ہے۔ بی ایس او نے بلوچستان میں ایک سیاسی ڈھانچے کو تشکیل دیا۔ اس سیاسی کلچر نے سیاسی ورکرز پیدا کئے۔بی ایس اواپنے قیام سے لیکراب تک بلوچ تحریک کا ہراول دستہ اور بلوچ سیاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
ویسے تو بی ایس او کے بے شمار چیئرمینز رہے ہیں لیکن ڈاکٹر کہور خان نے اپنی منفرد شخصیت کی وجہ سے ایک الگ مقام بنایا۔ بی ایس او کے دیگر مشہور و معروف چیئرمینوں میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، جالب بلوچ، ڈاکٹر یاسین بلوچ، رازق بگٹی، ڈاکٹر اللہ نذر، شہید بانک کریمہ، شہید غلام محمد بلوچ، شہید شیر محمد شامل ہیں۔
جب ڈاکٹر کہور خان نے بی ایس او کی چیئرمین شپ سنبھالی تو انہوں نے بلوچ طلبہ کو پرامن سیاسی کلچر کی جانب متوجہ کروایا۔ اور وہ اس مقصد میں کامیابی بھی ہو گئے۔ آج بلوچ طلبا دیگر کمیونیٹیز کے طلبا سے کہیں زیادہ سیاسی شعور رکھتے ہیں جس کا سہرا ڈاکٹر کہور خان کے سر ہے۔ حالانکہ ان کے دور میں بی ایس او دو دھڑوں میں تقسیم تھی۔ ایک دھڑا بی ایس او اور دوسرا دھڑا بی ایس او (سہب) کے نام سے مشہور تھا۔ بی ایس او کے چیئرمین ڈاکٹر یاسین بلوچ تھے۔ جبکہ بی ایس او (سہب) کے چیئرمین ڈاکٹر کہور خان تھے۔ ڈاکٹر کہور خان کے پشت پر رازق بگٹی، جالب بلوچ، لال جان، حمید ایڈوکیٹ، رستم بلوچ، انجینئر حمید بلوچ اور دیگر تھے۔ جبکہ ڈاکٹر یاسین کی سرپرستی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، ڈاکٹر عبدالحئی، شہید فدا احمد، شہید مولابخش دشتی، سینیٹر اکرم دشتی، میر جان محمد بلیدی اور دیگر تھے۔ بی ایس او کی تقسیم نے بلوچ طلبا کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا۔ آئے دن تعلیمی اداروں میں جھڑپیں اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ سینکڑوں طلبا کو ہاسٹلوں سے بے دخل کردیاجاتا تھا جس کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیمی کیریئر کا خاتمہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک دوسرے پر حملے کرنے کے الزامات لگاتے تھے۔ ذمہ داری لینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے گولیوں کا برسٹ چلتا تھا۔ تربت میں بی ایس او (سہب) کے رہنما ملا ستار بلوچ کوآٹھ گولیاں ماردی جاتی ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مارنے والوں کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے تھا۔ ملا ستار کو کراچی شفٹ کیا جاتا ہے۔ ملا ستار کے واقعہ کے بعد تربت میں فدا بلوچ کو شہید کیا جاتا ہے۔ اور ہمیں کہاگیا کہ قاتل تین تھے وہ ضلع کیچ زعمران سے آئے تھے۔ تینوں بی ایس او کے ممبرز نہیں تھے بلکہ غیر سیاسی لوگ تھے۔ اگر دیکھا جائے فدا کی شہادت اور ملا ستار پر قاتلانہ حملے میں ملوث افراد کا تعلق قبائلی خاندانوں سے تھا۔ وہ بی ایس او کے ممبرز نہیں تھے۔ یہ قبائلی جھگڑا کافی عرصے تک جاری رہا۔ اس جنگ میں بلوچستان کے سابق وزیر میر ایوب بلیدی کو جان سے ماردیاجاتا ہے۔ دونوں جانب بے شمار معصوم جانوں کا ضیاع ہوتاہے۔ فدا کی شہادت ہوں یا ملا ستار پر قاتلانہ حملے میں بی ایس او کے دونوں چیئرمینز تردید کرتے رہے۔ اور اپنے کارکنوں کو صبر اور پرامن رہنے کی تلقین دیتے رہے۔ تاہم چھوٹی چھوٹی جھڑپیں بی ایس او کے دونوں گروپس کے طلبا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب لیاری میں بی ایس او (سہب) کے کنونشن پر دوسرے دھڑے کے ایک گروپ نے فائرنگ کی۔ تاہم ڈاکٹر کہور خان اپنے کارکنوں کو صبر اور پرامن رہنے کی ہدایت کی۔ ڈاکٹر کہور خان ایک سیاسی بصیرت رکھنے والا طالب علم لیڈر تھے۔ وہ ایک ویژینری شخصیت کے مالک تھے۔ وہ کتاب دوست انسان تھے ان پر بے شمار الزامات لگائے گئے۔ تاہم ان الزامات میں کوئی صداقت نظر نہیںآتی۔ انہوں نے طلبا کو منظم کیا اور ایک سیاسی شعور دیا۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر عبدالمالک بلوچ اور جنرل سیکریٹری میر جان محمد بلیدی نے اپنے موجودہ نیشنل پارٹی کے رہنما انجینئر حمید بلوچ پر فدا بلوچ کے قتل کا الزام لگاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں انجینیئر حمید بی ایس او (سہب) میں تھے۔ حمید بلوچ کو فدا بلوچ کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا ہوگئی۔ وہ مچھ جیل میں قید کردیاگیا۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ خود کو دھراتی ہے۔ دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر کہور خان نے طلبا سیاست کے بعد مزید سیاست میں رہنے کے بجائے سرکاری نوکری کو ترجیح دی۔ سیکشن آفیسر سے سیکرٹری کی پوسٹ پر پہنچنے کے کچھ عرصہ قبل ریٹائرہوگئے۔ اور دوبارہ اپنے مخالف دوستوں کی پارٹی، نیشنل پارٹی کو جوائن کرلیا۔ اور ان کے سخت مخالف دوست، ڈاکٹرمالک بلوچ اور میر جان محمد بلیدی نے ان کی پارٹی میں شمولیت پر خوشی اور مسرت کا اظہار بھی کیا۔
میں (راقم) اسکول کے زمانے میں بی ایس او کا رکن بن چکا تھا۔ مجھے بی ایس او کے اسٹیڈی سرکل میں تعلیم حاصل کرنے کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ یہ اسٹڈی سرکل لیاری کے علاقے میراں ناکہ میں ایک خفیہ مقام پر قائم تھا۔ جہاں ڈاکٹر کہور خان خود کلاسز لیتے تھے۔ جب میں پہلے دن اسٹڈی سرکل سے گھر دیر سے پہنچا۔تو میرے گھر والوں نے میرے ہاتھ میں سرخ کلر کی ’’چگوارا‘‘ کی سوانح عمری سے متعلق کتاب دیکھی وہ یک دم کہنے لگے کہ کیا آپ بی ایس او والوں کے پاس گئے تھے؟ میں نے کہا جی ہاں!۔ تو ان کا جواب کچھ یوں تھا: ’’وہ تو خداکو نہیں مانتے ‘‘۔ میں نے لاشعوری طور پر جواب میں کہا: ’’وہ حق اور سچ کو تو مانتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر کہور خان میرے استاد تھے۔ ان سے میں نے مارکس ازم، فلسفہ، تاریخ اور ادب سمیت دنیا میں چلنے والی مظلوم اقوام کی قومی تحریکوں کے بارے میں آگاہی حاصل کی۔ ان کی رحلت سے میں ایک استاد سے محروم ہوگیا ہوں۔ وہ ایک شخص نہیں تھے بلکہ ایک انسائیکلوپیڈیا تھے۔ ان میں لیڈر شپ کی تمام خوبیاں اور صلاحیتیں تھیں۔ وہ ایک اچھے دوست بھی تھے اور ایک اچھے لیڈر بھی۔ رواں ماہ نومبر میں میری (راقم) ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کراچی پریس کلب میں ہوئی۔ وہ بلوچ لیڈر رستم بلوچ اور دیگر دوستوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرنے کی غرض سے آئے تھے۔ میں نے کہا: ’’استاد کیا حال ہے‘‘؟۔ ڈاکٹر صاحب نے مَذاقاً جواب میں کہا: ’’اب آپ میرے استاد ہوگئے ہو۔ آپ کے کالمز میں پڑھتا رہتا ہوں۔ آپ اچھا لکھتے ہیں‘‘۔ اس ملاقات کے چند روز بعد وہ ہم سے جدا ہوگئے۔ میرے استاد محترم مجھ سے جسمانی طور پر ضرور جدا ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے دیے گئے نظریات تاحیات زندہ رہیں گی۔