گوادر: گوادر کو حق دو تحریک کے دھرنے کو تیرویں روز میں داخل ہوگیا۔ دھرنے کے شرکاء سے حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چند دنوں میں افسوسناک واقعہ پیش آرہا ہے ۔ نوجوان مایوسی کا شکارہوکر خود کشی کررہے ہیں جوکہ غلط اقدام ہے میں نوجوانوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ بزدل ڈرپوک بن کر خودکشی نہ کریں۔ آپ لوگوں کی خودکشی سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا ظالم اپنی ظلم سے باز نہیں آتا تکلیف میں آپ کے والدین رشتہ دار ہوتے ہیں۔
ان ظالموں کے خلاف متحد ہونا چاہیئے۔ ہمارے پاس آکر دھرنے میں شامل ہوجائیں۔ اس دھرنے میں مزدور اور دیاڑی دار والا شخص بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس کام پر جانے کے بعد کچھ پیسہ آجاتا ہے لیکن وہ مایوس نہیں ہیں ہم دھرنا منتظمین نے ایک ٹیم تشکیل دی ہیں ان کے اخراجات برداشت کررہے ہیں۔ ان کے گھر والے بھی مطمئن ہیں اور اللہ پاک ان کا اجر ہمیں ضرور دے گا۔ یہ لوگ اس لیے بیٹھے ہیں تاکہ ان کو مستقبل میں کوئی پریشانی پیش نہ آئے اور ان کے سمندر ٹرالرز مافیا سے پاک ہو۔ ہم دھرنا منتظمین نے فیصلہ کیا اور درخواست کی کہ ماہیگیر اپنے روزگار کے لیے سمندر جائیں اور مزدور مزدوری کے لیے جائیں۔ فارغ وقت میں دھرنے میں شرکت کریں۔ آپ کے بھائی لوگ یہاں دھرنے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ڈی سی گوادر نے چند مہینے پہلے آرڈر نکالا تھا کہ سڑکوں پر احتجاج نہ کریں جس کو مسترد کردیا ہے۔
عوامی حکومت نے جمہوری جدوجہد کو روکنے کے لیے آرڈیننس پاس کروایا کہ احتجاج اور دھرنے بند ہوں۔ افسوس کہ اسمبلی میں موجود سقراط و بقراط ممبران بھی اس کو پاس کرانے میں سہولت کار بنے ہیں۔ یہ جمہوری نہیں ڈیکیٹر شپ فیصلہ ہے۔ بلوچستان حکومت نے جو آرڈیننس جاری کیا ہے یہ عوام کے خلاف ہے جمہوریت، آئین و قانون کے خلاف ہیں۔ یہ گورنر نے خود نہیں بنوایا بلکہ یہ بنواکر ان کے ہاتھ تھما دیا گیا تھا اور اس نے دستخط کردی۔ گورنر اور اس کے پارٹی نے نواز گورنمنٹ کے خلاف 126 دن دھرنا دیا تھا یہ منافقت کی انتہا ہے۔ بی این پی مینگل، جے یو آئی ف اور دیگر پارٹیوں کے لیے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کی کس حد تک مخالفت کرتے ہیں۔ جو وزیر، ایم پی اے اور بیوروکریسی اگر اچھا کارکردگی نہ دیکھائے اس کو فارغ کروانے کی بھی آرڈیننس جاری کردیں۔ گوادر کے عوام نے دھرنے میں شرکت کرکے آرڈیننس کو پاؤں تلے روند دیا۔ ہمارے اس دھرنے کی حمایت میں بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ریلیاں مظاہرے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اتوار کے روز ڈی چوک اسلام آباد پر بہت بڑا دھرنا دیاجائے گا اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں بھی احتجاج ریکارڑ کیا جائے گا۔
پیر کے روز خواتین کا باپردہ ریلی نکالی جائے گی۔ اگر بارڈر نہ کھولا گیا تو کوسٹل ہائی وے کے تمام زیرو پواؤنٹ اوتھل سے لے کر جیونی تک کی بندش اور چار سو ٹرک مالکان بھی احتجاج کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ڈمپر مالکان سے کہا جائے گا کہ وہ سی پیک روڑ کو مٹیریل سپلائی بند کردینگے۔ ہمارا دھر نا آگے کی طرف گوادر پورٹ کے مین گیٹ پر بھی منتقل کردی جائے گی۔ خواتین کی ایک وفد نے ہم سے ملاقات کی کہ آپ حکم دیں ہم ایکسپریس وے پر دھرنا دیکر ھر ھر قسم کی آمد و رفت کو بند کریں گے۔ لیکن ہم نے انھیں منع کردیا۔ اب عملی اقدام اٹھایا جائے ہم اٹھنے والے نہیں ہم ایک دو ٹرالر پکڑنے سے دھوکے میں نہیں آئینگے۔ اس پکڑے گئے ٹرالر کے مچھلیوں کو مقامی بیوپاریوں کے درمیان نیلام کروایا جائے اورٹرالر کے ممنوعہ جال کو ہمارے سامنے جلا دی جائے۔ ہمارے دوستوں نے ٹرالر کرو سے استفسار کیا کہ آپ لوگ کتنے دنوں سے ٹرالنگ کررہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ 45 دنوں سے ٹرالنگ کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی بھی ادارہ فشریز، ایم ایس اے، نیوی وغیرہ کوئی بھی نہیں آیا۔ دوسری جانب یہی ادارے سنجیدگی کی غلط بیانی کررہے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ ہمارے پاس راشن اور دوسرے اخراجات کے لیے مخیر حضرات دل کھول کر امداد کررہے ہیں ہمارے پاس رکھنے کے لیے جگہ نہیں۔ اب ہم اٹھنے والے نہیں ٹرالرز مافیا کتنی باثر کیوں نہ ہو ہم ان کو بھگانے تک بیٹھے ہوئے ہیں۔
اْنہوں نے کہا کہ ایک دودا نامی شخص کھلم کھلا سودا لگا رہا ہے وہ نمبر جاری کررہا ہے موصوف فشریز منسٹر کا رشتہ دار ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ گوادر کا سینیٹر بھی این او سی جاری کرنے والا کمیٹی کا ممبر ہے۔ دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ میں مصروف ہوں۔ سینیٹر صاحب کہتا ہے کہ میں دن میں 48 گھنٹہ کام کررہا ہوں اسلام آباد کے عجیب دن رات ہیں جوکہ 48 گھنٹوں پر مشتمل ہیں۔ جھوٹ کی بھی حد ہوتی ہے۔ ماضی میں ایک کال پر بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنا دھرنا ادھورا چھوڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیئے ھیں۔ مجھے کوئی بھی غلطی سے کال نہیں کرے گا۔ مجھے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ مجھے بلوچ بھائیوں سے بھی خوف نہیں ہے۔ مجھے پاکستان سمیت پوری دنیا بھر سے حوصلہ افزائی کے لیے کال آرہے ہیں۔ گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی کے پاس ایک کتا ہے اس کا نام زولو ہے وہ بیمار ہوا تو بہت پریشان ہوا لیکن افسوس ڈی جی گوادر کے سیوریج لائن کی ناکامی پر یا گٹر ملا پانی پینے، ملا فاضل چوک پر گٹر کے پانی سے بھر گیا جو جھیل کا منظر پیش کررہا تھا۔ اس کی تکلیف اسے نہیں ہے کتے کی بیماری کی تکلیف اسے ہورہا ہے۔ اس کے لیے وی آئی پیز گاڑی کا بندوبست کرواتا ہے اور ان کا علاج کروانے کے لیے لے گیا۔ افسوس جب میرا والد صاحب بیمار ہوگیا اور بے ہوشی کی حالت میں جی ڈی اے ہسپتال اور سول ہسپتال میں گیا تو کوئی ایمبولینس میسر نہیں رہا لیکن کتے کے لییلگڑری گاڑی کا بندوبست کیا گیا۔ میں جو بھی بات کہتا ہوں وہ ثبوت کے ساتھ کہتا ہوں۔