|

وقتِ اشاعت :   June 3 – 2015

اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ تحریک انصاف نے عوام الناس کو مجموعی طورپر مایوس کیا ۔ اس کی کے پی کے میں مجموعی کارکردگی مایوس کن رہی اور اس کارکردگی میں کسی بہتری کی توقع نہیں ہے ۔ وجہ ظاہری طورپر صاف اور واضح یہ نظر آرہا ہے کہ پارٹی اور صوبے کے اقتدار پر موقع پر ستوں کا قبضہ ہے ۔ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے اور نہ ہی انکے پاس ملک کو بہتر خطوط پر چلانے کا کوئی منصوبہ موجود ہے ۔ اکثر سیاسی مبصرین کی یہ حتمی رائے ہے کہ تحریک انصاف کا وجود ہی منفی بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد مقتدرہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا اور دو بڑی پارٹیوں پر زبردست طریقے سے دباؤ بڑھانا ہے تاکہ دو پارٹیوں کا نظام ختم ہو جائے اور ان کے اقتدار میں شمولیت کے لئے دروازے کھل جائیں ۔ابتداء سے ہی تحریک انصاف ملک کو درپیش سنگین مسائل سے لا تعلق رہا اور اپنے دھرنے کے ایجنڈے پر کام کرتا رہا ۔ اس دھرنے کا شاید مقصد بھی یہی تھا کہ موجودہ سیاسی قیادت کی ساکھ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے اور ان کو دباؤ میں رکھا جائے ۔ پی پی کے حد تک ان کو زیادہ کامیابی ملی اور بعض علاقوں سے خصوصاً پنجاب سے ان کا صفایا ہوگیا اور منصوبے کے تحت پی پی کو سندھ تک محدود کردیا گیا ۔ البتہ مسلم لیگ ن چونکہ حکمران جماعت ہے اس نے زبردست مزاحمت کی اور تحریک انصاف اور حکومت کے اندر ان کے حامیوں کو اپنے حدود میں رکھنے میں کامیاب ہوا اور تحریک انصاف کے سیاسی حملوں کا بھرپور جواب دیا اور حکومت کی زبردست طریقے سے دفاع کیا ۔ ابتداء سے ہی تحریک انصاف کو سندھ اور بلوچستان میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ وہ مقتدرہ کے دل چسپی کے علاقے میں ہیں،ان کی سیاست کا محور اور مرکز صرف وسطی پنجاب اور کے پی کے رہا جہاں سے اے این پی کو بھی صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر سیاست سے بے دخل کرنا ضروری ہوگیا تھا ۔ یہ کام تحریک انصاف نے کے پی کے میں خوبصورت انداز میں کرکے دکھایا حالانکہ عمران خان اور اس کی تحریک انصاف تحریک طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے تھے اور اکثر اوقات ان کی مفادات کی نگرانی کرتے ہوئے حدود پار کرتے ہوئے نظر آئے ۔ کل کے بلدیاتی انتخابات میں یہ ثابت کیا کہ تحریک انصاف ایک جمہوری سیاسی پارٹی نہیں ہے اور اس کا جمہوری اور انسانی حقوق سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ایک محاذ ہے جو ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے ہے اور مقامی طورپر ہر ایک نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سب کچھ کر ڈالا ،یہاں تک مسلح افراد کے گروہ نے اے این پی کے رہنماؤں میاں افتخار کے گھر پر حملہ کردیا، پولیس اس کی جان نہ بچا سکی اور فوج دوبارہ کمک کے ساتھ آکر ان کی جان بچائی ۔ ایک تو ان کے گھر پر حملہ کیا گیا بعد میں ان ہی کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ۔ یہ حملہ آور مسلح ہو کر میاں افتخار کے گھر پر حملہ کے علاوہ کیا کرنے آئے تھے ۔ تحریک انصاف اور اس کے رہنما ء اس کی وضاحت نہ کر سکے سوائے اس کے کہ وہ ایک فاشسٹ جماعت ہے ، تنقید اور مخالفت برداشت کرنے کا مادہ اس میں موجود ہی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی انتخابات میں بڑے پیمانے پر نہ صرف دھاندلی کی گئی بلکہ ہنگامہ آرائی ‘ قتل و غارت گری ہوئی جس میں درجن بھر لوگ ہلاک ہوئے اور 150سے زائد افراد زخمی ہوئے ۔ یہ سب کچھ تحریک انصاف کے ایک فاشسٹ پارٹی ہونے کا ثبوت ہے ۔ مقتدرہ کو اس بات کی آج کل ضرورت ہے کہ وہ مسلم لیگ ن ‘ پی پی ‘ متحدہ ‘ اے این پی اور بی این پی کو پریشان کرے کیونکہ یہی جمہوری پارٹیاں مقتدرہ کی راہ میں رکاوٹ بن کر نظر آرہی ہیں اگر کسی وجہ سے مقتدرہ کے ترجیحات تبدیل ہوگئیں تو تحریک انصاف کا پورے ملک میں نام و نشان بھی نظر نہیںآئے گا اور مقتدرہ کے تمام لوگ دوسری سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ ویسے مقامی انتخابات بلوچستان میں بھی ہوئے جو شورش زدہ صوبہ ہے مگر بلوچستان میں گڑ بڑ نہیں ہوئی اور نہ ہی بڑے پیمانے پر لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ یہ سیاسی سوجھ بوجھ کی نشاند ہی کرتی ہے موقع پرستی کی نہیں ۔