|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2021

“ہر کمالے راز والے” یعنی ہر بلندی کو پستی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ہر پست چیز کبھی نہ کبھی بلند ہوجاتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ علامہ اقبال نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اللہ تعالیٰ نے “سورۃ الم نشرح” میں فرمایا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، بلاشبہ ہر تکلیف کے بعد آرام ہے۔ یعنی اس نے تبدیلی کے قدرتی عمل کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ تبدیلی کے اس فطری عمل پر انسان ناخوش اور غمزدہ ہوجاتاہے کیونکہ وہ اسے مصیبت سمجھتا ہے۔ تبدیلی کا یہ فطری عمل پہیے کی مانند چل رہا ہے جو کبھی مشکلات پر آ کررکتی ہے تو کبھی کامیابی سے ہمکنار کراتی ہے۔ مشکل حالات انسان کو مستحکم کرتی ہیں۔ ظلم کا سہنا ان کا اختتام پذیر ہوجانا ہی تو ہے۔ انور مقصود لکھتے ہیں ظلم کی انتہا ظلم کی اختتام ہے۔ گوادر کو حق دو، کا، بلوچستان کو حق دو، میں تبدیل ہوجانا بھی ایک فطری عمل ہے۔ 2013 میں گوادر کے جو حالات تھے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں یعنی گوادر کے لوگ 2013 سے لیکر اب تک ظلم سہتے آرہے ہیں جن کو دبانا اب ممکن نہیں۔ گوادر میں 5500 پولیس اہلکار تعینات کردیئے گئے بجائے اسکے کہ مطالبات پر عمل درآمد کرتے، آئے روز نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیا یہی مسئلے کا حل ہے؟
گوادر دھرنے کو آج 20 روز مکمل ہوگئے ہیں۔ دھرنے میں بیٹھے لوگوں کے مطالبات بارڈر بندش کی بحالی، ٹرالرمافیا کے خلاف کاروائی، منشیات کا خاتمہ، بجلی اور صاف پانی کی فراہمی و دیگر مطالبات جو کہ آئینی ہیں ،یہ بات گوادر دھرنے پر بیٹھے شرکاء نے نہیں بلکہ حکومت نے خود تسلیم کیا ہے کہ ان کے مطالبات آئینی ہیں۔ پھر بھی ان پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جارہا؟ اس کے برعکس میڈیا ٹاک شوز میں بیٹھ کر یہ کہنا کہ مولانا کے تمام مطالبات تسلیم کئے گئے ہیں اب وہ دھرنا ختم کریں ،سمجھ سے بالاتر ہے اگر واقعی مطالبات تسلیم کئے گئے ہیں تو ابھی تک ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا۔ طاقت کے زور پر اقوام کو خاموش کراناتاریخ سے لاعلمی ہے۔