|

وقتِ اشاعت :   June 11 – 2015

جب جب بھی مسلم لیگ ن کی حکومت آتی ہے وہ سب سے پہلے اپنے تاجربھائیوں کے مفادات کا خاص خیال رکھتی ہے اور ان کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے ، وقتاً فوقتاً ان کے لئے بڑے بڑے پیکجز کا اعلان کرتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہو اور ٹیکسٹائل مافیا کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان نہ ہو۔ اس طرح سے ٹیکسوں کے نظام میں مراعات یافتہ طبقات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کو مزید فائدہ پہنچایا جائے بلکہ عوام کے جائز مفادات کو نقصان پہنچاکر تاجروں، صنعت کاروں اور ساہوکاروں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ملک کے 70فیصد عوام کی روزی اور روزگار کا تعلق زراعت، گلہ بانی اور ماہی گیری سے ہے اور ساتھ ہی صنعتی مزدور اور دوسرے مزدور۔ وزیر خزانہ کوئی ایک ایسا اقدام نہیں گنواسکتے کہ بجٹ میں ان کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔ بلکہ موجودہ حکومت سرکاری اور قومی اثاثے جو ریاست کے لئے منافع کمارہے ہیں ان کو ساہوکاروں کے ہاتھوں فروخت کررہی ہے تاکہ دولت کا ارتکاز زبردست طریقے سے ہو، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوجائے۔ موجودہ حکومت کو صرف ایک پریشانی ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا کہ بیرونی تجارت پر ان کی حکمرانی رہے اور اس کے فوائد صرف اور صرف برآمدکنندگان کو ملے یا کسی حد تک درآمد کنندگان بھی اس لوٹ مار میں حصہ لے سکیں۔ صرف تاجروں، صنعت کاروں اور ساہوکاروں کے لئے موجودہ بجٹ اور اس کے اہداف لوگوں کو قبول نہیں بلکہ اس دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہئے خصوصاً پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے مفادات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کیوں کہ وہ صدیوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔ بلوچستان یہ جائز توقع کررہا ہے کہ وفاق اگلے پانچ سالوں میں 500ارب اضافی رقم بلوچستان کی ترقی خصوصاً وسائل کی ترقی کے لیے مہیاکر ے اور مستقبل کی ترقی کی بنیاد فراہم کرے تاکہ بلوچستان بھی ترقی یافتہ علاقوں میں شامل ہو۔ بلوچستان کے معدنی، ماہی گیری، زرعی اور توانائی کے وسائل کو ترقی دی جائے۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے تاکہ اس کو دنیا کے ممالک تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کریں۔ دوسرے ممالک کو گوادر سے راہداری دینے سے پاکستان کی حکومت اربوں ڈالر کماسکتی ہے اور بندرگاہ کے قرب و جوار میں تجارتی علاقے، صنعتی علاقے اور پیداواری علاقے خطے میں معاشی خوشحالی کا منبع بن جائیں گے ۔حکومت پاکستان نے اس بات کو یکسر مسترد کردیا ہے کہ بلوچستان کو ترقی کے لئے اضافی وسائل دیئے جائیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے صوبائی ترقیاتی پروگرام شخصی بنیادوں پر چلانا بند کیا جائے اور اراکین صوبائی اسمبلی کے معاشی منصوبہ بندی کے پروگرام میں عمل دخل کو بند کیا جائے۔ ان کی ذاتی اسکیموں کو پروگرام میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ ابھی تک تو ایم پی اے حضرات کے علاقے کی ترقی کے لیے مختص رقم ان کی ذات پر ہی خرچ ہوتی آرہی ہے عوام کی فلاح و بہبود پر نہیں ۔اور نہ معاشی ترقی کے پروگرام کا حصہ ہوتی ہیں، اس طرح سے سالانہ 45ارب روپے ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس سے عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس سال ایم پی اے ترقیاتی پروگرام بند اور اس کے بدلے معاشی ترقیاتی پروگرام شامل کیا جائے جن کوماہرین چلائیں۔ کابینہ اور اسمبلی اس کی صرف نگرانی کرے، مداخلت نہ کرے۔