جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں بھارتی سیاسی اور فوجی قیادت زیادہ بے صبر اور جلد باز ہوتے نظر آرہے ہیں اور آئے دن پڑوسی ممالک، خصوصاً پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان اور اس کی ریاست بھارت کو علاقائی قوت یا عالمی طاقت بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستان اس کا مخالف ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی خطے کی تھانے داری بھی بھارت کو سونپی جائے ،دوسرے الفاظ میں خطے کے تمام ممالک بھارت کے تابع اور زیردست ہوں اور بھارت سب پر راج کرے۔ ظاہر ہے خطہ کے تمام ممالک جن کی سربراہی ہمیشہ سے پاکستان کرتا آیا ہے اس کا مخالف ہے۔ سارک ممالک میں بھی بھارت ایک موثر قوت بن کر نہیں ابھری۔ تمام ممالک، بشمول پاکستان، بھارت کی بالادستی کے خلاف ہیں۔ ہر وقت اور ہر موقع پر سارک ممالک بھارت کے بجائے پاکستان کا ساتھ دیتے آرہے ہیں۔ صرف بنگلہ دیش کی عوامی لیگ بھارت کا حامی ہے کیونکہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کا اہم فوجی اور سفارتی کردار رہا ہے۔ اس لئے حسینہ واجد کی حکومت بھارت کی شکر گزار ہے کہ اس نے پاکستان کے فوج کو سابقہ مشرقی پاکستان میں شکست دی اور اس طرح سے بنگلہ دیش بن گیا۔ سارک کے باقی تمام ممالک بھارت کی معاشی، سیاسی، سفارتی اور فوجی بالادستی اور حکمرانی کو پسند نہیں کرتے۔ بھارت کی مخالفت کرنے کا وقت آتا ہے تو سارک ممالک پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ بھارت کے اس جابرانہ اور متعصبانہ رویے کی بناء پر سارک کا خطہ ایک متحدمعاشی زون یا خطہ نہ بن سکا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ سارک کے تمام ممالک بھارت کی معاشی اور سیاسی بالادستی کو پسند نہیں کرتے۔ حالیہ دنوں میں بھارتی افواج نے برما کے اندر گھس کر بعض کیمپوں پر حملہ کیا اور ان کو تباہ کیا اور بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ ان فوجی کیمپوں سے بھارت کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری تھیں۔ اس موقع پر بھارتی وزیر نے یہ اعلان کیا کہ اب یہ بھارت حکومت کی پالیسی ہوگی کہ جہاں کہیں بھی بھارت کی سیکورٹی کے خلاف فوجی یا دہشت گردی کے کیمپ ہوں گے ان پر سرجیکل آپریشن کیا جائے گا۔ بھارت کے وزیر کا اشارہ صاف اور واضح طور پر پاکستان کی جانب تھا جس کا یہ مطلب لیا جارہا ہے کہ لشکر طیبہ اور جمعیت ا لدعوہ منظم اور مسلح تنظیمیں ہیں جو بھارت سے کشمیر کو آزاد کرانا چاہتی ہیں اور بھارت ان کو دہشت گرد سمجھتا ہے اور پاکستان کے اندر گھس کر ان کے خلاف کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کے اندر کسی قسم کی فوجی مداخلت یا مقامی طور پر سرجیکل آپریشن کا مطلب صرف اور صرف اعلان جنگ ہے اور پاکستان جائز طور پر اس کو جارحانہ کارروائی سمجھے گا بلکہ اس کو اعلان جنگ سمجھے گا۔ اسی بھارتی اعلان کے بعد خطے کی صورت حال زیادہ کشیدہ ہوگئی اور اس کے لئے فوج کے سربراہ نے فارمیشن کمانڈروں کے اجلاس میں اس اعلان کی نہ صرف مذمت کی بلکہ یہ اعادہ کیا کہ افواج پاکستان چپے چپے کا دفاع کریں گے اور حملہ آوروں کو شکست دیں گے۔ یہ گرما گرمی بھارت کی طرف سے شروع ہوئی اور اس کی ابتداء بھارتی وزیراعظم کی بنگلہ دیش کے دورے سے ہوئی۔ جس سے یہ تاثر لینا مشکل نہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف ایک اتحاد بنارہا ہے امریکہ سے دفاعی معاہدے کے بعد بھارت کو اب یقین ہوچلا ہے کہ وہ اس خطے کا تھانے دار بن کر ابھرے گا۔ مگر پاکستان اور اس کی مسلح افواج کی جانب سے اس کو خطرات کا سامنا ہے کیونکہ یہ تمام باتیں پاکستان کی ایک ایٹمی قوت ہوتے ہوئے نہیں ہوسکتی۔