بلوچستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خود رو تحریکوں نے سر اٹھانے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ یہ خود رو تحریکیں شخصیات پر انحصار کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کا جنم اور مرگ ایک حقیقی عمل رہا۔ کیونکہ کوئی بھی تحریک شخصیت کی بنیاد پر نہیں چل سکتی بلکہ تحریکیں تنظیمی ڈھانچوں کی بنیاد پر متحرک اور سرگرم ہوتی ہیں جس سے ان کا مستقبل بھی روشن ہوتا ہے۔
بلوچستان میں خود رو تحریکوں کا جنم لینا غیر فعال سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ہوتی رہی ہے۔ جہاں عام عوام کو درپیش مشکلات کے حل میں سیاسی جماعتیں مکمل ناکام ہوجاتی ہیں جس سے سماج میں سیاسی خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ جبکہ خود رو تحریکوں کی دوسری بڑی وجہ بلوچستان میں کمزور اور غیر مستحکم حکومتیں ہیں۔ جن کی قیادت عوام کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سے نابلد ہوتی ہے۔ ان میں اتنی اہلیت اور قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ عوام کے دیرینہ مسائل حل کر سکیں۔ مندرجہ بالا دونوں وجوہ کی بناء پر بلوچستان میں خود رو تحریکوں کی جنم اور ان کی مرگ بھی ہوتی رہی ہے۔
خود رو تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب ضلع کیچ کے علاقے ڈنوک میں مسلح جتھوں نے ایک گھر میں گھس کر ڈکیتی کی کوشش کی۔ اس دوران گھر میں موجود ملک ناز نامی خاتون نے مزاحمت کی۔ مزاحمت کے دوران ان کی شہادت ہوجاتی ہے اور ان کی بیٹی برمش شدید زخمی ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب پورا مکران ڈاکو راج کی لپیٹ میں تھا۔ مسلح افراد آزاد گھومتے تھے۔ سرِعام اسلحہ کی نمائش کرتے تھے۔ پرامن لوگوں کو حراساں کیا جاتا تھا۔کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھی۔ چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہورہا تھا۔ ان مسلح افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم تھی۔ پورے مکران ڈویژن میں ایک خوف کا سماں تھا۔ ہر کوئی اپنی عزت کے ڈر سے چپ رہتا تھا۔ کیونکہ ان مسلح افراد کو سرکاری پشت پناہی حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو کھلی چھوٹ حاصل تھی۔
تاہم یہ ڈر اور خوف اس وقت ختم ہوا جب ڈنوک کے واقعہ کے خلاف ضلع کیچ کے بجائے ضلع گوادر میں ایک چھوٹا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس مظاہرے کی قیادت حسین واڈیلہ، شاہ داد بلوچ اور بالاچ قادر کررہے تھے۔ اس مظاہرے کی فوٹیج سوشل میڈیاکی زینت بن گئی تھی۔ مقررین اپنی تقاریر میں مسلح افراد کو للکارہے تھے۔ ان کی گونج اتنی تیز تھی کہ اسکی آواز پورے مکران ڈویژن سمیت بلوچستان اور سندھ کے تمام علاقوں میں سنی گئی۔ اس طرح خوف کی کیفیت کا خاتمہ ہوا اور لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا کہ چند مراعات یافتہ اور حمایت یافتہ مسلح افراد سے ان کی طاقت کئی گنا زیادہ ہے۔ بالآخر نامزد ملزمان کو جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ ڈنوک واقعہ میں زخمی ہونے والی بچی برمش کے نام سے بننے والی برمش یکجہتی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ یہ تحریک بھی کچھ عرصے کی مہمان رہی اور اپنی موت آپ مرگئی۔ دراصل یہ ایک خود رو تحریک تھی جس کے پاس کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا۔
کچھ عرصے کے بعد ایک اور خود رو تحریک کا جنم ہوا۔ یہ تحریک ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے سرگرم ہوگئی تھی۔ بلیدہ میں خواتین اور بچوں نے منشیات فروشوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ظاہری طورپر یہ مظاہرہ ایک معمولی نوعیت کا تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے۔بلیدہ کے ہزاروں لوگوں نے ایک ریلی کی شکل میں منشیات کی لعنت کو ایک سازش قراردیا۔ بلیدہ زامران انسداد منشیات کمیٹی کا قیام عمل میں لایاگیا جس کی سربراہی میر برکت بلیدی نے کی۔ بلیدہ اور زامران کے مظاہرے نے مکران کے دیگر علاقوں کو جگا دیا۔ تربت، دشت، گوادر، پسنی سمیت دیگر علاقوں میں منشیات فروشوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر آگئے۔
کیونکہ یہ وہ دور تھا جب حکومت ایک منصوبے کے تحت بلوچ نسل کو منشیات کے ذریعے تباہ کرنے پر تلی ہوئی تھی تاکہ بلوچ معاشرے میں سیاسی کلچر کو تباہ کیا جائے۔ سیاسی کلچر کی تباہی سے حکومتی ادارے ایک تیر سے دو شکار کررہے تھے۔ یعنی سیاسی تحریک کو روکنا تھا۔ اور ساتھ ساتھ اربوں روپے بھی کمانا تھا۔ اس طرح ان کا اقتدار بھی محفوظ اور مال بھی محفوظ کے فلسفے پر عمل پیرا تھے۔ بلیدہ زامران انسداد منشیات کمیٹی نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد تحریک مکران ڈویژن میں اچانک غیر فعال ہوگئی۔ یہ بھی ایک خود رو تحریک تھی۔ جو حالات و واقعات کی پیداوار تھی۔
اچانک گوادر میں دو ویڈیوز وائرل ہوگئیں تھیں جس میں ایک شخص کچھ ماہی گیروں کے ہمراہ اداروں کے حکام کے ساتھ بات چیت کررہے تھے۔ جس میں وہ اداروں کی جانب سے ماہی گیروں کی تذلیل کے خلاف سخت موقف اختیار کیے ہوا تھا۔ جبکہ دوسری ویڈیو میں وہی شخص ایک احتجاج کے دوران کہہ رہا تھا کہ اگر میرا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں ہوتا تو میں بلوچ گوریلا رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کے ساتھ پہاڑوں میں ہوتا۔ یہ دونوں ویڈیوز نے بلوچ معاشرے کو اپنی جانب متوجہ کیا اس طرح جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو بلوچ قوم میں ایک پذیرائی ملی۔ انہوں نے گوادر میں تاریخی جلسہ کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچوں کی ریلی نکالی۔ لاکھوں کی تعداد میں مکران ڈویژن کے لوگوں نے ان کی ریلی میں شرکت کی۔ پھر ایک دھرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ دھرنا 33 دن تک چلتا رہا۔ اس تحریک کو بلوچستان حق دو تحریک کا نام دیاگیا۔ یہ تحریک بھی کسی جماعت کے بل بوتے پر نہیں چل رہی تھی بلکہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی شخصیت کی بنیاد پر شروع کی گئی تھی۔ گوادر میں اپنے مطالبات کی حق میں بلوچستان حق دو تحریک کا دھرنا 33ویں روز کے بعد اس وقت اختتام پذیر ہوا جب وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو، صوبائی وزیر ظہور بلیدی، سید احسان شاہ اور ڈپٹی کمشنرگوادر نے دھرنے میں آکر اسٹیج پر ان کے مطالبات منظور کرلئے۔ اور مطالبات کی منظوری کا نوٹیفکیشن مولوی ہدایت الرحمان بلوچ کے حوالے کیا-
حکومت اور دھرنا منتظمین میں ٹرالرنگ کی روک تھام کے لئے اس بات پر اتفاق ہوا کہ سمندر میں محکمہ فشریز اور ماہی گیروں کی مشترکہ ٹیم نگرانی کرے گی ۔ نان ٹیچنگ ٹیچرز، وائن شاپس سے متعلق مطالبات پر عملدرآمد کے علاوہ ماہی گیروں کے لیے ایک پیکچ، ایکسپریس وے متاثرین کو معاوضے جلد ادا کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ سرحدی کاروبار اور غیر ضروری چیک پوسٹوں سے متعلق ایک مہینے کی مہلت حکومت نے مانگی کیونکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے پاس ان چیک پوسٹوں کو ہٹانے کا اختیار نہیں ہے۔ بلکہ یہ اختیار وفاقی اداروں کے پاس ہے۔ اس معاہدے کے تین روز بعد بلوچستان کے علاقے لاکھڑا کے مقام پر پاکستان کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں کی بدتمیزی اور ناروا سلوک کے خلاف مسافر بس مالک نے اپنی بس کو احتجاجاً آگ لگادی۔
اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان حق دو تحریک کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس ملک کا اصل حکمران کوئی اور ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان ان کے سامنے بے بس ہیں۔
بلوچستان حق دو تحریک بھی ایک خود رو تحریک ہے جس کی کوئی کابینہ، سینٹرل کمیٹی اور جنرل کونسل جیسا تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ ایسی تحریکیں وقتی ہوتی ہیں، شخصیت کی بنیاد پر چلتی اور ختم ہوجاتی ہیں۔ جن کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ تنظیموں کو آئینی و قانونی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا باقاعدہ آئین اور قانون ہوتا ہے۔
میرا ذاتی مشورہ ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان، میر برکت بلیدی، حسین واڈیلہ، گلزار دوست اور دیگر رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ بلوچ بزرگ رہنما واجہ یوسف مستی خان سے رہنمائی حاصل کرکے اپنی اپنی خود رو تحریکوں کو ایک محاذ کی شکل دیں۔ واجہ مستی خان نے کراچی کے بلوچوں کے لئے بلوچ متحدہ محاذ نامی ایک سیاسی اور سماجی پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے جس میں پیپلز پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان شامل ہیں۔ اس محاذ کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی کارکن اپنی جماعت کی رکنیت برقرار رکھتے ہوئے محاذ کا رکن بن سکتا ہے۔ یہ ایک جماعت نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں پر مشتمل ایک محاذ ہے جس کو انتخابات میں حصہ لینے سے دور رکھاگیا ہے تاکہ محاذ میں موجود رہنما اور ارکان اپنی اپنی جماعتوں کے پلیٹ فارمز سے آزادانہ انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ اور محاذ کے پلیٹ فارم کو انتخابات سے دور رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ محاذ تقسیم اور بحران کا شکار ہونے سے بچ سکے۔ بلوچ متحدہ محاذ اپنے قیام سے اب تک ملیر میں بحریہ ٹاؤن کی بدمعاشی کا مقابلہ کیا جبکہ لیاری اور دیگر بلوچ آبادیوں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف جدوجہد جاری ہے۔بلوچستان میں پیدا ہونے والی خود رو تحریکوں کو بھی ایک محاذ کی ضرورت ہے تاکہ یہ تحریکیں پریشرگروپ کے بجائے مستقل بنیادوں ایک تنظیمی شکل میں اپنی جدوجہد جاری رکھ سکیں۔