|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2021

تربت:  جمعیت علمااسلام کے صوباء نائب امیراورضلع کیچ کے امیراورمعروف ادیب مولاناخالدولیدسیفی نے تربت پریس کلب کے پروگرام گند ء ْ نندمیں اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کااہم ترین مسئلہ یہاں کے وسائل کی لوٹ مارہے،بلوچستان کودیگراکائیوں کی طرح نہیں دیکھاجاتا،بلوچستان میں اس رویے کی وجہ سے عدم اطمینان موجودہے،بجلی ،پانی ،صحت اورتعلیم کے حوالے بلوچستان ناگفتہ بہ صورتحال کاشکارہے،اسی لئے لوگ احتجاجی تحریکوں کے ذریعے حقوق کاحصول چاہتے اوراس کاحصہ بن جاتے ہیں

انہوں نے کہاکہ ان جہدکاروں کوغداری کے سرٹیفکیٹ دیئے جاتے ہیں،جمعیت علمااسلام، بی این پی، نیشنل پارٹی اورپنختونخواہ عوامی پارٹی بلوچستان کی نمائندہ پارٹیاں ہیں،انہوں نے مزیدکہاکہ عوامی اورجمہوری سیاست میں مزیدرکاوٹیں پیداکرنے سے حالات مزیدگھمبیرہوں گے،طاقت اورجبرسے عوام کوخاموش نہیں کیجاسکتا،انہوں نے خدشہ ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ اگرآنیوالے عام انتخابات میں 2018 کاطریقہ واردات اپنایاگیاتوعوامی ردعمل اس سے بھی زیادہ شدیدہوگا، قوم پرست سیاست کاگڑھ ہے،جمیعت مکران میں اپنی سیاسی حکمت عملی اورجدوجہدکی بناپرپْرامیدہے،مولاناہدایت الرحمن کادھرناواحتجاج عوان کی بے چینی کاابتداء نتیجہ ہے انتہاء نتیجہ نہیں،دفاترپر،اسکولوں،ہسپتالوں کی عمارتوں کوچوکیوں میں تبدیل کرنے کے خلاف عوام دیتے ہیں،انہوں نے مزیدکہاکہ وزیراعظم اوروزیراعلیٰ محض منشی اعظم ومنشی اعلیٰ ہیں،تربت پریس کلب کی فعالیت قابل ستائش ہے،

میں خودایک زمانے سے پریس سے وابستہ رہاہے،میں سمجھتاہوں اس وقت پورے ملک کی سیاسی صورتحال اوربلوچستان کی کچھ قدریں مشترک ہیں،لیکن بلوچستان اورپاکستان کاسیاسی منظرنامہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں،پاکستان معاشی بحران اورسیاسی ابتری کاشکارہے،حکومت کاحصہ رہنے والے اہم اہلکاروحکام معاشی بحران کااعتراف کیا،رزاق داؤدنے اس معاشی ابتری کااعتراف کیاہے،پاکستان بننے کے بعد9سال تک ملک کوآئین نصیب نہیں ہوا،جب آئین بنتاہے تواسے ایوب خان توڑتاہے،یہ ایک واضح پیغام ہے اورایوب خان 1958میں موجودہ نظام کابنیادرکھاگیا،اس کے بعدنیب کی تحریک کی بنیادپڑی،بنگالیوں کے خلاف ون یونٹ بنائی گئی،اس کے خلاف مفتی محمود،غوث بخش بزنجواوردیگرقائدین نے جدوجہدشروع کی،1971کے نتائج تسلیم نہیں کئے گئے

اورملک دولخت ہوگیا،جب کہ اس کے بعد1976میں ضیاآجاتاہے،یہ تسلسل 1999 میں مشرف کے آنے تک جاری رہتاہے،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 2008 اور2013میں جمہوری حکومت منتخب ہوئیں،لیکن موجودہ سلکٹڈحکومت جسیمنظرنامہ پرعوام اوردنیاکوایک جمہوری نظام کے طورپردکھایاجارہاہے،انہوں نے کہاکہ یہ نظام بے اختیارہے،وزیراعلیٰ اوروزیراعظم منشی اعلیٰ و منشی اعظم ہیں،کرسی پربراجمان لوگ بے اختیارہیں،وہ محض کورے کاغذوں پردستخط کرنے کے لئے رکھے گئے ہیں انہیں کوء اختیارحاصل نہیں،جبکہ 1958میں رکھی گء سیاسی نظام بنیادپرقائم قوت تمام فیصلے کرتی ہے۔