|

وقتِ اشاعت :   June 17 – 2015

یہ خبر دنیا بھر میں بڑی دلچسپی سے پڑھی اور سنی گئی کہ سندھ رینجرز نے کراچی کے مومن آباد تھانے پر چھاپہ مارا اور حاضر سروس پولیس اہلکار کو گرفتار کرنے کی کوشش میں پولیس تھانے پر فائرنگ کی۔ اس کی تصدیق اعلیٰ ترین پولیس افسران نے میڈیا کے سامنے کی کہ آپے سے باہر رینجرز کے مسلح اہلکاروں نے سرکاری وردی میں پولیس تھانے کے اندر فائر کھول دیا۔ ظاہر ہے رینجرز کو پولیس کے اہلکاروں سے جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا اور نہ ہی پولیس اہلکار جو تھانے میں موجود تھے سرکاری طور پر مسلح تھے۔ اس لئے رینجرز یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ تھانے کے اندر رہتے ہوئے ان کی جانوں کو خطرات لاحق تھے جس کی وجہ سے ان کو گولیاں چلانی پڑیں۔ ملک بھر میں قانون کی حکمرانی کی تابندہ نشانی پولیس تھانہ ہے۔ ریاست کی طرف سے یہ قابل احترام اور مضبوظ ترین جگہ جہاں پر شہریوں کی جان ومال محفوظ سمجھی جاتی ہے یہاں تک کے عادی مجرم بھی اپنے آپ کو پولیس کے ہاتھوں میں محفوظ سمجھتا ہے۔ یہ بات الگ کہ کوئی فرد قانون سے تجاوز کرتا ہے اور مجرم یا ملزم پر زیادتی کرتا ہے ایسے لوگوں اور اہلکاروں کے لئے سزا قانون میں تجویز کی گئی ہے۔ پس پولیس تھانے میں رینجرز کی فائرنگ صرف ایک بات ثابت کرتی ہے کہ اس فورس میں ڈسپلن نہیں ہے۔ کسی بھی شہری کی جان ان کے ہاتھ محفوظ نہیں ہے۔ آئے دن شکایات آتی رہتی ہیں کہ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں سینکڑوں افراد کو قتل کیا گیا ،ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی عدالت نے سزائے موت نہیں سنائی۔ اعلیٰ عدالتیں رینجرز اور ان کے اعلیٰ ترین افسران سے یہ پوچھیں کہ اتنے سارے لوگ بغیر قانونی اختیارات کے کیسے قتل ہوگئے۔ ہمارے ملک میں زیر حراست قتل کی شاید سزا ختم کردی گئی ہے۔ ہزاروں افراد نے دیکھا کہ لوگ سر راہ گرفتار ہوئے، ان کے نام اور تصاویر اخبارات میں شائع ہوئے۔ کچھ دن کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مقابلوں میں مارے گئے ۔ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے کہ زیر تحویل افراد کی زندگی کو محفوظ تر بنایا جائے۔ عدالتیں اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ زیر حراست لوگوں کو کوئی گزند نہیں پہنچنے گا، ان کی زندگی اور عزت دونوں محفوظ ہوں گی۔ ان کو جرم ثابت کئے بغیر کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ یہ کام صرف اور صرف پولیس کرسکتی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پولیس عوام اور اپنے علاقے کے عوام اور آبادی کے سامنے جوابدہ ہے اور کسی مقامی فرد کو غیر قانونی طور پر نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اس کے بعد وہ عوامی نمائندوں ،مقامی، صوبائی اور قومی اسمبلی کے سامنے بھی جوابدہ ہیں سب سے بڑھ کر حکومت وقت جس کے تحت پولیس کام کررہی ہے جوابدہے۔ اسی لئے پوری مہذب دنیا میں جرائم اور قانون شکنی کے خلاف صرف اور صرف پولیس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں رینجرز ،نیم فوجی دستوں اور فوج کو اس کام کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ تمام مہذب ممالک میں پولیس کا محکمہ نظروں سے اوجھل رہتا ہے اور لوگوں کو پولیس کی حکمرانی کا تاثر نہیں دیتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد نیم فوجی دستوں کو ان کی اصل ڈیوٹی کی جگہ دوبارہ تعینات کیا جائے اور پورے ملک سے تمام نیم فوجی دستوں کو شہری علاقوں سے نکالا جائے اور امن وامان کا قیام پولیس یا لیویز کے حوالے کیا جائے۔ ان پر وزیر اعلیٰ اور شہری انتظامیہ کا کنٹرول بحال کیا جائے۔؛ پولیس اور منتخب رہنما ء اس کے ذمہ دار ہیں کہ ہر شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو۔ گرفتار یا زیر تحویل شخص کی زندگی اور اس کی عزت کا احترام کیا جائے جب تک کہ تک عدالت ان کو سزا نہ دے۔ نیم فوجی دستوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں جیسا کہ مومن آباد پولیس تھانہ کراچی میں ہوا جہاں پولیس تھانے کے اندر فائرنگ کرکے قانون نافذ کرنے والے سب سے مقتدر ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔ تمام دنیا اور مہذب دنیا میں اس کا مذاق بنے گا کہ پاکستان میں تھانے بھی محفوظ نہیں ہیں اور وہ بھی دوسری سیکورٹی اداروں کی وجہ سے۔