|

وقتِ اشاعت :   June 19 – 2015

کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکر ٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ نے ’’سنگر ‘‘میڈیا گروپ سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ بلوچ تحریک آزادی میںآج کی جو رسہ کشیاں ہیں، انکی شروعات 2012 سے ہوئیں، 2011میں شاید کسی حد تک موجود تھے۔ یا 2010 میں تھے۔ 2009 میں تھے۔وہ بالائی سطح تک معلوم ضرور تھا کہ اختلافات موجود ہیں۔لیکن 2012 میں ابھر کر سامنے آگئے۔ بظاہر ان میں کوئی نظریاتی اختلافات آج تک دیکھنے میں نہیں آئی ہے ۔ نہ ہم نے محسوس کی ہے ۔جو لوگ اس وقت سوشل میڈیا میں ایک مہم چلارہے ہیں جس میں بلوچ نیشنل مومنٹ ،اس کی قیادت، بلوچستان لبریشن فرنٹ کی قیادت ، بی ایس او آزاد کے خلاف جو ایک مہم چلائی جارہی ہے آج تک اس میں کوئی نظریاتی اختلاف دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اگر ہے تو وہ اسکو واضح کردیں ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں نظریاتی اختلافات کاہونا اور جو کلاس کے مفادات ہیں انکا ہونا ایک لازمی امر ہے۔یہ ہوں گے، چاہے آزادی سے پہلے ہو یا اسکے بعد،انکا ہونا فطری بات ہے، ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یقیناًآج جدوجہد جو ایک اہم مرحلے پر پہنچ کر دنیا کی سطح پر متعارف ہواہے،دنیا اس پر یقیناًغور کررہی ہوگی کہ اس ریجن میں جو جدوجہد ہے اسکا انجام کیا ہوگا اسکی میندیٹ کیا ہے،اسکی تنظیمی حیثیت کیا ہے ؟ تو ان اختلافات کا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ جہاں تک انکے خاتمے کی بات ہے بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیادت نے باقاعدہ طور پر دو دفعہ 2009سے بی این ایم کے اُس وقت کے سیکرٹری جنرل چیئرمین خلیل بلوچ کی سربراہی میں ایک لیٹر لکھا گیا وہ لیٹر نواب خیربخش مری کو پہنچایا گیا۔ جس میں یہ صلاح دی گئی تھی کہ ایک مشترکہ کونسل بنایا جائے، جتنی آزادی پسند جماعتیں ہیں وہ اس کونسل کے تحت رہ کر جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔پھر 2010 میں بطور سیکرٹری جنرل میں خود دوبارہ اسی لیٹر کو لیکر نواب خیربخش مری کے پاس گیا ۔ ہماری اُس وقت تجویز تھی صبا دشتیاری ،�آغا محمود اور استاد محمد علی ٹالپور صاحب پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے ،جو نواب صاحب کے سربراہی میں ہو ۔ ہم نے اپنی طرف سے حیربیار مری کا نام تجویز کیا لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ بعد میں جب ہم نواب صاحب سے ملے ،کچھ تلخ باتیں بھی ہوئیں ، ہم اس موقف پر ڈٹے رہے کہ جب تک ایک کونسل نہیں ہوگی اور اسکے تحت جدوجہد نہیں ہوگی شاید اسکا انجام بہتر نہیں ہوگا، اور یقیناًاس پر کوئی کان نہیں دھراگیا۔اسکے علاوہ 2014 میں اکتوبر میں دوبارہ ایک لیٹر، جاوید ، براہمدغ اور مہران کو پہنچ چکا ہے ۔ حیربیار نے وہ لیٹر لینے سے انکار کیا ہے۔ہماری دوبارہ یہ کوشش ہے جو اختلافات ہیں انکو بیٹھ کر حل کیا جاسکے۔ اگر اختلافات میں نظریاتی پیچیدگی یا خدا نخواستہ کسی کی ذاتی مفاد نہیں ہے تو یقیناًوہ حل ہوسکتے ہیں۔جہاں تک بی این ایم کی قیادت ہے ہم نے اپنے کونسل سیشن میں فیصلہ کیا کہ ہمارا آج تک کسی سے کوئی اختلاف نہیں رہا ہے۔ہاں اگر کوئی بلوچ قومی جدوجہد کو کسی کا پراکسی بنانا چاہے کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی ، کسی قوم و ملک کی جو اس وقت طاقتور ممالک ہیں ، جیسے جرمنی ایک طاقتور ملک ہے، یورپی یونین بھی ایک طاقتور یونین ہے ، یہاں پہ چین ہے ، امریکہ ہے ۔ چین کے علاوہ آجکل چین اور ہندوستان کے یہ تعلقات انکا جو شنگھائی تعاون تنظیم ہے روس کے تعاون سے۔ ایسی بہت ساری قوتیں ہیں جو اس ریجن میں موجود ہیں۔ اگر کوئی بلا مشروط اپنی جدوجہد کو انکی گود میں ڈال دے اور یہ کہے کہ جی ہم اپنے قومی مفادات کو پس و پشت ڈال کر صرف نام کے طور پر آزادی لیں گے جس کو ڈومیئن اسٹیٹ کہا جاتا ہے، بلوچ نیشنل موومنٹ ایسے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گا، یہ فیصلہ کونسل سیشن میں ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی نظریاتی مشکل حائل نہیں ہے یا کسی کے مفادات نہیں ہیں تو میں نے جیسے پہلے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ ایک انقلابی معیار کے تحت ا ن مسائل کو حل کرنے کی اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی قومی آزادی میں سرگرم جو سردار ہیں وہ دو، تین ،چارہیں ۔ حیربیار مری، مہران مری ، براہمدغ بگٹی ، جاوید مینگل جو آزادی کیلئے جہد میں حصہ دار ہیں ۔ باقی جتنے سردار ہیں نواب ہیں وہ اس وقت پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔آزادی اور انقلاب میں فرق ہوتا ہے ۔ ہوسکتا ہے سرمایہ دار بھی آزادی مانگے ، جاگیر دار بھی آزادی مانگے ، جیسے ہندوستان میں کانگریس نے آزادی مانگی تھی ،آخر میں جب سبھاش چندر بوس کریش ہوئے تھے43.42میں غالباََ ۔تو اس وقت انہوں نے آزادی کا نعرہ لگایا تھا ۔ لیکن اس سے پہلے بھگت سنگھ اور اسکے دوستوں نے نشان دہی کی تھی کہ ہم ایسی آزادی نہیں مانتے جس کی بنیاد پر انگریز حاکم چلا جائے یہاں کا سرمایہ دار یا جاگیر دار حاکم بن بیٹھے۔ اس سلسلے میں نواب خیربخش مری نے بھی نشان دہی کی تھی کہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ غریب کے بیٹے قربانی دیں گے سردار کا بیٹا حاکم بنے گا۔لیکن اس وقت جو صورتحال میں دیکھ رہا ہوں وہ ذرا مختلف ہے۔ایک انقلابی روش پرورش پارہی ہے۔لوگوں میں ایک احساس اجاگر ہوا ہے ۔ لوگ بی این ایم کے پلیٹ فارم پر دھڑا دھڑ آرہے ہیں اور وہ اپنی وابستگی کو مضبوط کررہے ہیں۔اگر یہی وابستگی ایک تربیتی پروسس کے تحت آگے کی جانب بڑھے تو یقیناًایسے تمام مشکلا ت جو اس وقت سماج میں دشمن کی طرف سے دیئے گئے ہیں، ان تمام پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اگر مکمل طورپر ایک اتحاد نہ بن سکے کم از کم پوائنٹ پر ہمارا ایک اتحاد بن جائے لیکن وہ اتحاد بھی ایک معیار کے تحت ہو وہاں پر ایک دوسرے کی برداشت کی بنیاد پر ہو۔بی این پی کے ساتھ اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ نیشنل پارٹی کے ساتھ ممکن ہی نہیں ہے ۔ البتہ جو دوسرے آزادی پسند ہیں ان سے ہماری کوشش ہے کسی نہ کسی لیول تک اتحاد بن جائے ۔انہوں نے کہا کہ بی این ایف کا ایک ضابطہ بن چکا ہے ۔ جس کی 10یا12پوائنٹس ہیں ۔ جن کے مطابق جو جو پارٹیاں بی این ایف میںآنا چاہتے ہیں انکو ان ضابطوں کی پابندی کرنی ہوگی، ضابطہ کی کاپی ہم نے پرووائیڈ کی ہے ۔ براہمدغ نے ایک شرط رکھا ہے کہ آپ بی آر ایس او کو ایک نشست دے دیں۔ اس سلسلے میں کچھ پیچیدگیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ بی ایس او جو اس وقت ہمارا ایک اہم اتحادی ہے اور بی این ایف کا ایک اہم اور موثر ممبر ہے تو انہوں نے یہ کہاتھا کہ بی ایس او چونکہ ایک خودمختار تنظیم ہے وہ کسی کا ونگ نہیں ہے۔ کسی کی انڈر نہیں ہے۔ لیکن بی آرایس او باقاعدہ بی آر پی کا اسٹونٹ آرگنائزیشن ہے کیونکہ بی آر ایس او کا قیام بی آر پی کی 2008کے کونسل سیشن میں ہوا تھا ۔۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ 2008کے سیشن میں بی آرایس او کا قیام ہوا تھاتو یقیناًبی آرایس او کو علیحدہ تنظیمی حیثیت نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہم نے یہ کہاتھا ضرورکہ آپ بی آر ایس او کے ممبران کو لے آئیں کونسل میں بٹھائیں ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔اپنے ضابطے تشکیل دیکر سب کو بھیج چکے ہیں ۔ اس ضابطے کے تحت اگر بی آرپی بی این ایف میں آنا چاہتی ہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حیربیار مری صاحب اپنی وضاحت خود کر یں کہ واویلہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں۔جہاں تک مجھے علم ہے دسمبر 2012تک بی این ایم نے اپنا کوئی نمائندہ اس بنیاد پر مقرر نہیں کیا کہ حیربیار مری یا تو بلوچ نیشنل موومنٹ کے پلیٹ فارم پر آئیں یا کسی ایسے کونسل کا ممبر بنیں جسکے تحت ایک مشترکہ ڈسپلن ہواور اس ڈسپلن کی نمائندگی کرتے ہوئے حیربیار مری خارجہ امور کے حوالے سے بلوچ قوم کی نمائندگی کریں۔ لیکن حیربیار مری نے ان دونوں مشوروں ( صلاح)کا احترام نہیں کیا۔ نہ تو آپ بلوچ نیشنل موومنٹ میں آئے اور نہ ہی آپ نے کسی ایسے کونسل سے اتفاق کیا۔ اختلافات تو نواب خیربخش مری اور حیربیار کے درمیان تھے۔بعد میں مہران مری اورحیربیار کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے ۔ ہمارا حیربیار مری سے نہ کوئی اختلاف تھا اور نہ آج تک میں سمجھتا ہوں حیربیار سے کوئی اختلاف ہے۔اگر حیربیار مری کا کوئی اختلاف ہے بہتر یہ ہے کہ وہ وضاحت کرے کہ اختلافات کی وجہ کیا ہے۔ انہوں نے کچھ ایسی باتیں کی ہیں کہ ہم نے کوششیں کی ہیں، ڈاکٹر اللہ نذر سے ہمارے مسئلے ہیں کچھ اختلافات ہیں انکو حل کردیں ۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں اللہ نذر نے بھی کوشش کی ہے۔چےئرمین خلیل بلوچ نے بھی کوشش کی ہے۔ میں بھی ساتھ رہا ہوں ۔ بہت سارے ایسے معاملات پر نواب خیربخش مری کے ہاں ہم گئے ہیں ۔ حیربیار کو میں نے رابطہ نہیں کیا ہے۔ چیئرمین خلیل نے رابطہ ضرور کیا ہے۔ اللہ نذر نے ضرور رابطہ کیا ہوگاجو میرے علم میں نہیں ہے،تو انہوں نے کوششیں کی ہیں کہ اختلافات حل ہوسکیں لیکن اختلافات حل نہیں ہوئے ہیں ۔ ہمارے خلاف جو محاذ کھولا گیا ہے میں آج تک سمجھ نہیں پایا اسکی وجوہات کیا ہیں۔