|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2015

لندن:  بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے کہا کہ نام نہاد جہد کاروں کے ذریعے بے گناہ پشتونوں کے قتل عام کا مرتکب ہوکر بلوچوں اور پشتونوں کو باہم دست و گریبان کرنے کی سعی لاحاصل ریاست کی نئی سفاک پالیسیوں کا مظہر ہے۔ایسے واقعات کا بنیادی مقصد ایک طرف بلوچ قومی جہد کی ساکھ اور عالمی و انسانی حقوق کے قوانین پر مبنی بلوچ جہد کے اقدار کو نقصان پہنچا کر مہذب دنیا کو تحریک کے انسانی ،سیاسی ،اخلاقی اور سفارتی ہمدردی و حمایت سے محروم کرنا اور اس کی آڑ میں اپنی ظلم و بربریت پر پردہ ڈال کر مزید قتل و غارت گری کی راہ ہموار کرنا ہے تو دوسری طرف بلو چ کو برادر ہمسایہ قوم سے لڑا کر اس کو اپنے حقیقی قومی مقاصد سے دور کرنا ہے اور قابض ریاست کی اس دوہری چال کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مستونگ جیسے واقعات کی صورت میں کچھ نام نہاد جہد کار قابض کے سہولت کار کا کردار سر انجام دے رہے ہیں۔ قابض ریاست بلوچستان پر اپنے قبضے کے طوالت اور مضبوطی کیلئے فرنٹ لائن پر پشتونوں کو خاص طور پر خیبر پختونخوا کے پشتونوں کو ایف سی میں بھرتی کرکے بلوچوں کے مد مقابل کرچکا ہے ، تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ پشتون بحیثیت قوم برابری کے بنیادپر بلوچوں کے ازلی دشمن ہیں اور اس سازش کو تقویت پہنچانے کے لئے دوسری طرف بلوچ آزادی پسندوں کی صفوں میں اپنے ایجنٹ گھساکر بلوچستان میں آباد پشتونوں کو قتل کرواتا ہے تاکہ بلوچ اور پشتوں اقوام کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا کرکے انکے تاریخی جغرافیائی تعلقات میں بگاڑ پیدا کرسکے بلوچ قوم دوست رہنما نے مزید کہا ہے کہ جس طرح خیبر پختونخواہ کے کچھ پشتون ایف سی کی صورت میں صرف پیسوں کی خاطر بلوچ نسل کشی میں شریکِ جرم بن چکے ہیں اسی طرح بلوچ جدوجہد آزادی کے نام پر بیگناہ پشتونوں کے قاتل بھی بلوچ قومی تحریک کی نظر میں مجرم و گناہگار ہیں۔ ان دونوں کا کردار اور عمل یکساں ہے۔ ایک، چند پیسوں کے لئے پاکستانی فوج کے ایجنڈے کو آگے لیجارہا ہے تو دوسرا آزادی کے نام پرقومی تحریک کے خلاف ریاستی سازش پر عمل پیرا ہیں۔ حیربیار مری نے مزید کہا ہے کہ قابض کے بے انتہاء ظلم و جبر اور و زیادتیوں ،ہزاروں بلوچوں کی شہادتوں کے باوجود بلوچ قومی جہد کی ثابت قدمی نے قابض پنجابی ریاست کو نت نئے اور زیادہ شدید سفاک حربے استعمال کرنے پر مجبور کردیاہے۔اسی پالیسی کے تحت پاکستان اپنے کچھ ایجنٹوں کو قومی جہد کاروں کا چوغہ پہنا کر قومی تحریک کے اندرگھسانے میں کامیاب ہوچکاہے۔ یہ نام نہاد جہد کار عرصہ دراز سے تسلسل کے ساتھ قومی جہد سے متضاد و متصادم عمل سرانجام دے رہے ہیں جن کا فائدہ ماسوائے قابض پنجابی ریاست کے کسی اورکو ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ متعدد بار ان عناصر کی قومی جہد سے متصادم عمل و کردار کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ بلوچ قومی جہد کی آڑ میں نہتے بے گناہ پشتونوں کا قتل عام بھی بظاہر برادر قوم پشتون اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ بلوچ تحریک ایک جائز جد و جہد آزادی نہیں بلکہ ایک سفاک اور خونخوار مسلح شدت پسندی ہے جسے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی پرواہ نہیں بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد دہشت گردی ہے ایسے واقعات کا مقصد قابض پنجابی ریاست کے بے بنیاد دعوؤں کو تقویت دینے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ بلوچ پشتوں رشتے صدیوں پہ محیط ہیں بے شمار چھوٹے چھوٹے واقعات کے باوجود مجموعی طور پر بلوچ و پشتون کا رشتہ باہمی احترام کا رہا ہے اور بلوچ و پشتون قوم ریاستی حربے کو ناکام بناتے آرہے ہیں ان حالات میں بھی یقینی طور پراپنے تاریخی تعلقات کو ایسے گھناؤنی سازشوں کی نذرنہیں ہونے دیں گے کیونکہ دونوں اقوام نے ہمیشہ سے مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور فطری حوالے سے انکے سرزمین بطور پناہ گاہ ایک دوسرے کے کام آئے ہیں ۔قومی حوالے سے بلوچ و پشتون کے درمیان ایسا کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں جو قومی تصادم کا باعث ہو دونوں ہی مظلوم قومیں ہیں جنہیں انگریزوں نے غلام بنا کر ان کی سرزمیں کو ڈ یورنڈ لائن کھینچ کر غیر فطری طور پرتقسیم کردیا جس کے بعد دونوں اقوام مسلسل پاکستانی مداخلت، غلامی و ظلم و جبر کا شکار رہے ہیں ۔ پنجابی قبضہ گیر کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ دونوں اقوام کو کسی طور دست و گریبان کرسکیں۔ پہلے دونوں طرف نا م نہاد قوم پرستو ں کو الیکشن کے نام پہ استعمال کر کے بلاجواز نفرت اور تعصب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس میں ناکامی کے بعد اب نئے حربے استعمال کر کے دونوں مظلوم قوموں کو آپس میں لڑا کر مزید کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ پنجابی تسلط کو ان اقوام پر دائمی طور پر مسلط کرکے ان اقوام کے وسائل کی لوٹ مار بلا رکاوٹ جاری رکھ سکے۔ ایک طرف پورے بلوچستان میں پنجابی فوج کی بربریت جاری ہے تو دوسری طرف بلوچ قوم کے ہمدرد برادر ہمسایہ قوم جس کے ساتھ بلوچ قوم کے تاریخی رشتے ہیں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ قوم کے خلاف کرنا بلوچ قومی پالیسی سے متضاد ہے ، آیا ایسے پالیسیوں پر عمل پر کسی طور بلوچ قوم اور بلوچستان کی تحریک آزادی کے خیر خواہ ہوسکتے ہیں ؟ تاریخی طور پر خراسان سے لے کر پنجاب تک نصیر خان اور احمد شاہ کی قیادت میں دونوں قوموں نے شانہ بشانہ دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے۔ جب افغانستان پہ حملے کیلئے انگریزوں کے توپوں کو پنجابیوں نے بار برداری کر کے پنجاب سے گزار تو بلوچوں نے اپنی سرزمین پہ ان حملہ آورانگریزوں کی شدید مزاحمت کی جس کے رد عمل میں انگریزوں نے قلات پہ حملہ کر کے خان محرب خان کو شہید کیا۔ اب اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ سارا عمل قومی تحریک کو بد نام و ناکام کرنے کیلئے پنجابی ریاست کے ایماء پہ کیا جارہا ہے اور یہ قابض ریاست کے تسلسل کے ساتھ جاری مختلف چالوں کا ایک شاخسانہ ہے ، اب یہ بلوچ سیاسی کارکنوں و دانشوروں کا فرض ہے کہ قومی فائدے و نقصانات اور مستقبل کے عالمی و علاقائی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے نقصاندہ پالیسی کی بھر پورانداز میں حوصلہ شکنی کریں تاکہ بلوچ جدوجہد آزادی کو گزند پہنچانے والوں کا راستہ روکا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پشتون قوم کو بھی بلوچ قوم کی طرح پاکستانی ریاست سے آزادی کے لئے جدوجہد کرنی چائیے تاکہ دونوں بردار اقوام مستقبل میں مشترکہ طور پر بلوچ پشتوں خطہ میں امن و استحکام کو دوبارہ بحال کرسکیں ۔ جاری بلوچ نسل کشی کے بارے میں بات کرتے ہوئے حیربیار مری نے کہا ہے کہ پاکستانی ریاست مقبوضہ بلوچستان میں عالمی جنگی قوانین کی روز اول سے خلاف ورزی کررہا ہے جہاں پر بلوچ قوم کو ہر روز فوجی آپریشن، بمباری اور مختلف قسم کے جارحیت سے اجتماعی سزا دے جارہی ہے اور اب وقت کے ساتھ ساتھ بلوچ نسل کشی کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ، بلوچستان میں جہد کاروں کے ہاتھوں پے در پے شکستوں کے بعد اپنے سفاکیت کا نشانہ اجتماعی طور پر عام بلوچوں کو دے رہا ہے ، گذشتہ دو سالوں کے دوران مکران ، قلات و جوہان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے دیگر مختلف علاقوں سے عام بلوچ شہریوں کو صرف بلوچ ہونے کے بنا پر انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار و قتل کرنا ہو یا حال ہی میں قلات ، اسپلنجی اور شال میں لوگوں کو صرف بلوچ ہونے کے بنا پر دہشتگرد فوج کی طرف سے بڑے پیمانے پر گرفتار کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اب بلوچستان میں محض بلوچ ہونے کے ناطے عام شہریوں کو اجتماعی سزائیں دینے کے عزائم پر عمل پیرا ہے جو سراسر ہیگ ریگولیشن 1907 کے بین الاقوامی جنگی قوانین کے آرٹیکل 50 ، جس کی عالمی جنگی قانون جنیوا کنونشن چہارم کے شق 33 کے ذریعے بھی توسیع کی گئی تھی کی مکمل خلاف ورزی کررہا ہے جس کے تحت دوارن جنگ کوئی فوج مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو اجتماعی سزا نہیں دے سکتا ہے، جس سے ظاہرہوتا ہے کہ عالمی قوانین کے مطابق پاکستان سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے اور پاکستان کا اس طرح عالمی قوانین کو روندتے ہوئے اپنی من مانی کرنا اور کھلم کھلا بلوچ نسل کشی کا مرتکب ہونے اور اس پر مہذب اقوام عالم اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کی خاموشی حیران کن ہے۔