|

وقتِ اشاعت :   January 6 – 2022

گوادر کو حق دو تحریک سے بلوچستان کو حق دو کے دھرنے سے شہرت پانے والے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے گزشتہ روزکراچی پریس کلب کا دورہ کیا، انھوں نے میٹ دی پریس سے خطاب کیا اور بعد ازاں کراچی پریس کے بلوچ صحافیوں سے ملاقات کی اور بلوچستان کو حق دو تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔

انھوں نے میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سوئٹزرلینڈ میں بیٹھے ہوئے ناراض بلوچ رہنمائوں سے بات کرنا چاہتی ہے جو وہاں پرسکون زندگی بسر کررہے ہیں۔ حکومت ان سے بات کرنے کرنے کے بجائے بلوچستان کے سوا کروڑ ناراض عوام سے بات کرے، انھوں نے کہا کہ وہ تین ماہ بعد کوئٹہ میں دس لاکھ افراد کو جمع کریں گے، اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے، ان کا یہ بھی کہنا تھا پوری دنیا میں بلوچستان میں سی پیک منصوبے کی مخالفت کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جب کہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان میں سی پیک کا وجود ہی نہیں ہے تو پھر مخالفت کیسی اور کیوں کی جا رہی ہے؟ بلوچستان کے عوام احساس محرومی نہیں بلکہ محرومی کا شکار ہیں جب ان کو ان کے وسائل سے محروم کردیا جائے تو وہ پھر محرومی کہلاتا ہے ۔انھوں یہ بھی کہا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ سوچنا ہوگا کہ جو لوگ پاکستانی آئین کے تحت قومی و صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتے تھے وہ پہاڑوں پر کیوں چلے گئے ہیں ،میں بھی اگر جماعت اسلامی کا کارکن نہیں ہوتا تو میں بھی آج پہاڑوں پر ہوتا، انھوں نے کہا اگر حکومت نے جتنی عزت بھارتی جاسوس کل بھوشن کو دی ہے اتنی بلوچوں کو دیتے تو حالات مختلف ہوتے اور ہم بھی مطمئن ہوتے۔

میٹ دی پریس کے بعد بلوچ صحافیوں سعید سربازی ، عارف بلوچ، رفیق بلوچ، عزیز سنگھور، سعید جان بلوچ، شفیع بلوچ، ابو بکر بلوچ، حفیظ بلوچ، غلام اکبر بلوچ، معروف مصنف و ریسرچر اختر بلوچ کے علاوہ اس ملاقات میں کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی اور سیکریٹری رضوان بھٹی بھی شامل تھے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے سخت اور مشکل سوالات کے جوابات بڑے اطمینان اور خوش اسلوبی سے دئیے، روزنامہ آزادی کے منیجنگایڈیٹر عارف بلوچ کے اس سوال پر کہ گوادر میں جاری دھرنے کے دوران کراچی سے آئے ہوئے بلوچ رہنما یوسف مستی خان گو گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن آپ کی گرفتاری نہیں ہوتی ۔جس پرمولانا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یوسف مستی خان دھرنے میں شرکت کے بعد اپنے ایک عزیز کے گھر چلے گئے تھے اس لئے اسے گرفتار کرنا آسان تھا وہ دھرنے میں تھے ان کے اطراف ہزاروں لوگ تھے اس لئے ان کی گرفتاری مشکل تھی اور اس صورت میں حالات خراب بھی ہو سکتے تھے اس لئے مجھے گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، جب میں نے (سعید جان بلوچ) نے سوال کیا کہ بلوچ قوم کے حقوق کی جدوجہد میں آپ کی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی آڑے آئی تو آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟

انھوں جواب دیا کہ جماعت اسلامی بلوچ قوم کے حقوق کی جدوجہد میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے گی، میں خود پارٹی کے پالیسی بنانے والوں میں شامل ہوں تاہم انھوں نے یہ واضح کر دیا کہ وہ جماعت اسلامی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے لیکن انھوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ بلوچ قوم کے حقوق کی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونگے۔ عزیز سنگھور نے سوال کیا کہ آپ کی تحریک خود رو تحریک ہے جس کاکوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے، جو تحریکیں شخصیت کے نام چلتی ہیں ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کے باعث تحریک کمزور پڑ جاتی ہے اور بلآخر تحریک ختم ہو جاتی ہے۔ ان کا جواب تھا کہ اس پر ان کی دوستوں سے مشاورت جاری ہے وہ اس تحریک کو وسعت دینا چاہتے ہیں یہ تحریک بلوچستان کے عوام کی تحریک ہے کوئٹہ میں ہونے والے احتجاج میں ہم پختون علاقوں سے بھی لوگوں کو شامل کریں گے اس لئے ہم نے ابھی سے رابطے شروع کردئیے ہیں۔ سعید سربازی کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کبھی بھی بلوچوں پر ظلم کرنے والوں میں شامل نہیں رہی ، ضیا الحق کی شوریٰ میں شامل ضرور رہے جس پر پروفیسر غفور احمد ساری زندگی قوم سے معافی مانگتے رہے، ہم کچھ عرصہ مشرف کے ساتھ بھی رہے

لیکن اس غلطی کا احساس بہت جلد ہوگیا تھا اس لئے جماعت اسلامی الگ ہو گئی ۔ بلوچستان میں ظلم کرنے والوں میں کیا پیپلز پارٹی شامل نہیں تھی ؟ کیا بلوچستان کے سردار اور نواب اس کی تباہی اور بربادی میں شامل نہیں رہے، مولاناہدایت الرحمان نے کہا کہ دھرنے کے دوران ان پر متعدد بار دبائو ڈالنے اور لالچ دینے کی کوشش کی گئی تاہم ہم ثابت قدم رہے۔بلوچستان میں کوسٹ گارڈ کی چیک پوسٹیں بلوچ سردار اور نواب ختم کرنے میں اس لئے ناکام رہے کہ ان کے یہ مطالبات اپنے ذاتی مقاصد کے لئے تھے جبکہ ان کے ایک مطالبے پر ہی چیک پوسٹیں ختم کردی گئیں کیونکہ انھیں بلوچ قوم کی حمایت حاصل تھی۔ انھوں نے گوادر دھرنے کے دوران بلوچ خاتون ماسی زینی کے کردار کی بھی تعریف کی اور کہا ماسی زانی ایک غریب ماہی گیر کی بیوی ہے، انہوں نے گھر گھر جا کر خواتین کو دھرنے میں شرکت کے لئے قائل کیا اور وہ اس کامیاب رہی۔ ممتاز صحافی عزیز سنگھور نے اپنی کتاب’’ سلگتا بلوچستان‘‘ مولانا ہدایت الرحمان کو پیش کی جس پر انھوں کہا کہ عزیز سنگھور نے بلوچستان کے مسائل کو جس انداز میں پیش کیا ہے وہ قابل تحسین ہے، وہ دھرنے میں مصروف ہونے کے باعث کتاب کی رونمائی تقریب میں شرکت نہیں کر پائے۔

انھوں نے کہا کہ وہ کوئٹہ میں ہونے والے احتجاج میں عزیز سنگھور کو شاندار کتاب لکھنے پر گولڈ میڈل بھی پیش کریں گے۔ مولانا کو ممتاز مصنف و ریسرچر اختر بلوچ نے اپنی کتاب ’’کرانچی والا‘‘ بھی پیش کی۔ انھوں نے تمام بلوچ صحافیوں سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ بلوچ صحافی اپنے بلوچ بھائیوں کی جدوجہد میں کراچی میں رہ کر بھی شامل ہیں ۔انھوں روزنامہ آزادی کے مینجنگایڈیٹر عارف بلوچ کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور بلوچستان کے عوام کی حقوق کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے پر ان کے مرحوم والد صدیق بلوچ کو بھی خراج عقیدت پیش کیا۔ آخرمیں انھوں نے کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی اور سیکریٹری رضوان بھٹی کا بھی شکریہ ادا کیا۔مولانا ہدایت الرحمان کو کراچی پریس کلب کی جانب سے سندھی اجرک کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔