پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ملک کے جمہوریت پسند قوتوں نے صوبوں اور ملکی اکائیوں کو خود مختیاری یعنی زیادہ اختیارات دینے والا بل قومی اسمبلی وسینٹ سے پاس کرکے 18 ویںترمیم کی صورت میں ایک بااختیار اور آئینی حوالے سے صوبوں کو ان کے وسائل وساحل کا حق ملکیت اور اختیارات تفویض کر دیا۔ اس طرح اٹھارویں ترمیم سے قبل بہت سے وفاقی محکمے جو مرکزکے پاس تھے وہ سب صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے۔
واضح رہے کہ 18ویں ترمیم سے قبل پی پی پی کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے دور وزارت اعلیٰ میں بلوچستان کے 65 اراکین اسمبلی میں سے ماسوائے سردار یار محمد رند کے تمام 64 اراکین وزیر تھے تاہم وزارت کاٹائٹل نہ ہونے کے باوجود وزیر بے محکمہ اپنے عوام کی خدمت میں مصروف عمل تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ بلوچستان کے وسائل کوبیدردی اور بے دریغ ضائع کیا جاتا تھا۔ اٹھارویں ترمیم کے باوجود آج بھی بلوچستان کابینہ میں چودہ وزیر اور پانچ مشیر شامل کئے جا سکتے ہیں لیکن اس کے برعکس یہاں ایک نئی تیکنیک ایجاد کرکے معاون خصوصی، پارلیمانی سیکرٹری کا ٹائٹل دے کر انہیں مکمل طور پر وزارت کے اختیارات تفویض کرکے بلوچستان کے عوام کو بھوکا پیاسا اور ترقی سے محروم کرکے ستر سالوں سے جاری سیاسی شطرنج والا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔قابل حیرت بات یہ ہے کہ بلوچستان میں ان ناانصافیوں پر ملک کے ادارے بھی خاموش ہیں بلوچستان میں انسرجنسی کی صورت حال کے باعث یہاں سیاسی اختیارات کو اب سلیکیٹڈ کر دیا گیا ہے اور سیاسی اکھاڑے کے پہلوانوں کا انتخاب بھی پسند پر ہی کیا جاتا ہے
جو جتنا زیادہ تابعدار اور فرمانبردای کامظاہرہ کریگا وہی اتنا ہی عوامی مقبولیت حاصل کرتا رہے گا ۔ بلوچستان کو ایک منصوبہ یا سارش کے تحت ہمیشہ ہی پسماندہ رکھا گیا ہے جب سیاستدان صوبے کی ترقی ،عوامی خوشحالی اور جدید ترقی کو اپنی ترجیحات ہی میں شامل نہیں کرینگے تو یقینا بلوچستان ترقی اور خوشحالی کے بجائے محرومیوں، بدحالی اور پسماندگی کا شکار ہوتا رہے گا بلوچستان خطے کا امیر ترین اور خوش قسمت صوبہ ہے جہاں معدنی ذخائر گیس تیل سونا چاندی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جنہیں اب تک کسی صوبائی یا وفاقی حکومت کے قابل استعمال یا عوامی ترقی کیلئے بروئے کار لایا ہی نہیں گیا ہے؟ سوئی کے علاقے سے نکلنے والی قدرتی گیس جو ملک کے تمام علاقوں کو گیس فراہم کر رہی ہے لیکن بلوچستان کے نوے فیصد علاقوں کو گیس جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں ،وہی گیس جوصوبے کی ملکیت ہے اسی صوبے کے باشندے اپنی ہی قدرتی وسائل سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ گیس کو استعمال کرنے کی استطاعت تک نہیں رکھتے اور تو اور پچاس کی دہائی سے سوئی ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی قدرتی گیس سے سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے نزدیکی علاقے بھی اب تک گیس سے محروم ہیں ۔اس محرومی میں جہاں وفاق کی ناانصافیاں شامل ہیں وہاں بلوچستان کی سیاسی قیادت، جماعتیں علاقائی نواب وسردار بھی برابر کے مجرم ہیں ان کی خاموشی یا جی حضوری کی بدولت بلوچستان اب بھی ایتھوپیا اور صومالیہ جیسا منظر پیش کر رہا ہے جہاں حالات اس طرح ہیں کہ جوہڑوں اور تالابوں کے پانی سے انسان اور حیوان ایک ساتھ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اٹھارویں ترمیم اور صوبوں کو اختیارات ملنے کے باجود بلوچستان حکومت ان وسائل کو استعمال میںلانے سے تاحال قاصر ہے۔
بلوچستان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہنوز جاری ہونے کے باوجود صوبائی و قومی پارٹیاں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں ۔قوم پرست پارٹیاں جو ساحل اور وسائل کے محافظ اور بلوچستان کے عوام کے نام نہاد ترجمان بنے بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی ریکوڈک جیسے اہم مسئلہ پر آنکھیں بند کرکے عوامی مفادات کی سوداگری میں مصروف عمل ہیں۔ ان اہمیت کے حامل منصوبوں ریکوڈک اور سیندک کو اگر صوبائی حکومت قابل استعمال بنائے تو بلوچستان یورپ، سنگاپور ،تائیوان جیسا ترقی یافتہ صوبہ بن سکتا ہے اور اسی ریکوڈک سے ہم پاکستان کے واجب الادا کھربوں روپے قرضہ بھی اتار سکتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کی نااہلی اور وفاق کی بلوچستان میں عدم دلچسپی کی بدولت اس طرح کے منصوبے ان کی ترجیحات میں شاید شامل نہیں ہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ ریکوڈک پر بلوچستان حکومت جرات اور ہمت کا مظاہرہ کرے اور ریکوڈک کے سونے کو صاف کرنے والا ریفائنری لگائے، بے شک صوبے کا سارا بجٹ اس پر خرچ کیا جائے نیزاگر اس پر پانچ سالہ ترقیاتی فنڈر بھی خرچ کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن ہمارے اراکین اسمبلی کو اپنی پیٹ پر پتھر ضرور باندھنا ہوگا۔ صوبے میں بیڈ گورننس، نان میرٹ ،بیمار بیورو کریسی، سفارش کلچر کے فروغ کو بالائے طاق رکھے بغیر بلوچستان کی ترقی کا خواب تاقیامت شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ تاہم صوبے کی اہم قوم پرست جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی سمیت جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی جو صوبے کے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں وہ بھی صوبے کے وسائل بالخصوص ریکوڈک اور سیندک پر مکمل خاموش ہیں ۔پی ڈی ایم اتحاد میں صوبے کی دو اہم جماعتیں نیشنل پارٹی اور بی این پی شامل ہونے کے باوجود بلوچستان اور ریکوڈک ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں تاہم قوم پرست قیادت و دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے چند لفاظی بیانات دے کر وسائل کی بندر بانٹ پر گلو خلاصی کرنا مناسب نہیں بلکہ اس اہم ایشو پر دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے آپ کو انتخابی اکھاڑے سے آئوٹ کرنے کا خطرہ مول لینا شاید نہیں چاہتے
اسی وجہ سے ان کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ لیکن مجھے بحیثیت قلمکارانتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ اسمبلی میں دھواں دھار تقاریر کرنے والے ثناء بلوچ اور اپوزیشن پر کہ وہ بھی چپ کا روزہ رکھ کر کسی کی ناراضی شایدمول نہیں لینا چاہتی اور تو اور بلوچستان حکومت کے دوست نما اپوزیشن نے بھی اس اہم ایشو پر اجلاس ریکوزٹ کرنے یا عوامی عدالت میں جانے یا پھر ریکوڈک جیسے اہم ایشو پر عوام کو آگاہ کرنے یا انہیں اعتماد میں لینے کا اقدام اب تک نہیں کیا ہے۔ ان قوم پرست پارٹیوں کی خاموشی کا اصل مقصد صوبے کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر برابر کی شراکت داری کے مترادف ہے اب بھی وقت ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، سردار اختر جان مینگل ،نوابزادہ اسرار اللہ زہری سمیت دیگر قوم پرست جماعتیں ایکشن لیں اور جمعیت سمیت دیگر اپوزیشن کو بھی صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں، وفاق کی نامناسب اور آئین سے متصادم پالیسیوں کے خلاف سخت موقف اپنائیں اور اس سلسلے میں وفاق کو ٹف ٹائم دینا ہوگا اور ساتھ ہی صوبائی حکومت کو جی حضوری اور یس سر کرنے کے بجائے اب خودداری کا مظاہرہ کرکے بیدار ہونا ہوگا، صوبے کے وسائل پر چشم پوشی صوبائی حکومت اور اپوزیشن کیلئے سیاسی خودکشی کے برابر ہوگی۔ بلوچستان کی ترقی کیلئے لفاظی اقدامات کے بجائے اب حقیقی معنوں میں صوبائی حکومت اور اپوزیشن کو بہتر اقدامات کرکے صوبے کے وسائل کو صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی پر صرف کرنا ہوگا بصورت دیگر عوام اگلے انتخابات میں آپ کا بہتر انداز میں احتساب کرینگے۔ اوراس طرح کے شعبدہ باز سیاسی لیڈر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عوامی عدالت میں نااہل ہونگے۔اب بال صوبائی حکومت اور دوست نما اپوزیشن کے کورٹ میں ہے کہ وہ ریکوڈک پر کیا موقف اور لائحہ عمل اپناتے ہیں؟