ازل سے یہی ہوتا آرہا ہے ہر دور کا صاحب اقتدار عوام کے تحفظات کو دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔
کیونکہ جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں وہ نا اہل اور صلاحیتوں سے خام ہیں اس متعلق مولانا عبید اللہ سندھی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ۔جس میں جتنی اہلیت اورصلاحیت ہو اسکو اسکی اہلیت و صلاحیت کے مطابق ذمہ داری دی جائے۔
تاکہ اس سے ماحول برقرار رہے۔اور اگر کسی کو اسکی صلاحیت و اہلیت سے زیادہ کی ذمہ داری دی گئی تو اس سے معاشرہ میں مختلف قسم کافساد برپا ہوگا اور ہر فرد کی زیست اجیرن ہوگی ۔
اب ہمارے ہاں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ موصوف عوام کو نقصان پہنچانے میں کتنی صلاحیتیں رکھتا ہے یہ حال ہے تو پھر عوام کس کے زیر سایہ جائے۔ نا اہل ،اہل اقتدار کی کرم نوازی سے بلوچستان انتہائی سنگین حالات سے گزر رہا ہے ۔بلوچستان کو اگر ایک نظر دیکھا جائے تو یہ عبرت کا مقام بننے کے انتہائی قریب ہے یہ المناک غمناک و خوفناک حقیقت مستقبل قریب میں اپنے ہولناکیوں کے ساتھ ایک قہر بن کر جب بلوچستان کی عوام پر ٹوٹ پڑیگی تب بہت دیر ہوچکی ہوگی اور اس سے مرکز پر بھی اثر سے پڑیگاکیونکہ پاکستان جو عوام کی امیدوں کا مرکز ہے اب مرکز ہی اپنے ما تحت عوام کو تحفظ فراہم کرکے عوام کی کشتی کو کنارہ عافیت تک پہنچاسکتا ہے ۔حالات کے پیش نظر پس پردہ خراماں خراماں تصادم ایک دن ابھر کر پورے خطے میںپھیلے گا۔ یہ ہنگامے یہ دہشت پھیلانا اور معاشرہ و سماج کو پرفتن بنانا ایسے ماحول پر ریاست کو اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیئے تاکہ عوام کی معاشرتی زندگی قدرے آسان ہو، عوام کو مزید نقصان پہنچانے کیلئے اس رچی ہوئی سازش کو جو اپنی منزل کی سمت بڑی سرعت سے طوفان کی مانند سر پٹ دوڑ رہا ہے جب یہ طوفان بلوچستان کے عوام کو یکدم بھسم کرنے کیلئے تابناک ہوگی تو پھر کسی سردار میں یاکسی میر و معتبر میں اس طوفان کو روکنے کی سکت نہیں ہوگی۔مرکز کو چاہیئے کہ اس وحشت کو ارتقاء نصیب ہونے سے قبل قابو میں کرلے کیونکہ ہنوز حالات خبر دے رہے ہیں کہ جس مفادات مراعات کی کشتی میں سردار، میر و معتبرین سوار ہیں اس کشتی میں انا ئیت کا سوراخ ہے وہ کشتی کسی بھی وقت غرق ہوسکتا ہے۔یہ فقط آپس میں ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کیلئے اپنے ذاتی مفادات میں الجھے ہوئے ہیں۔انکی حیثیت اس خس و خاشاک کی مثل ہے جسکو کسی سیلاب نے بے بس کر رکھ دیا ہو۔اور عوام بھی کالانعام ہیں کہ انہوں نے اس خس وخاشاک کو ہر دلعزیزی کانام دے رکھا ہے۔اور ان ناخداؤں کے واسطے گلے پھاڑ کر نعرہ بلند کر کے انکے ہاتھ مضبوط کر رہے ہوتے ہیں
جو پھر مداری بن کر بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں کے نیچے معدنیات کے حصول کیلئے یکے بعد دیگرے دھاوا بول دیتے ہیں۔ان وحشت زدہ حالات سے اگرکوئی خلاصی دے سکتی ہے تو وہ مادر وطن مرکز کی حمایت اور دو طبقہ کی وحدت ہے۔بلوچستان کو ضرورت ہے تو بس مرکز کی حمایت اور یہی دو طبقہ کی وحدت و یکجائی ۔جب تک عوام اور حکام کی افکار میں وحدت نہیں پائی جائیگی تب تک بلوچستان ترقی سے خام رہے گی اور آگے جا کر بھی یہ یکجائی و وحدت وجود نہیں پا سکے گی۔
اب آئیے ذرا گوادر میں سی پیک معاہدہ کی سمت کہ اس سے گوادر کے عوام کو مرکز سے کتنی حمایت حاصل ہے اور عوام کتنی خوشحال ہیں اور کتنا فائدہ میسر ہوا ہے عوام کو اور بلوچستان میں سی پیک معاہدہ سے حکام اور عوام میں مثبت وحدت پائی گئی ہے یامنفی وحدت۔
حال ہی میں گوادر کی سر زمین پر حق دو تحریک کے نام سے ایک کامیاب تحریک وجود پائی جس کو مولانا ہدایت الرحمن لیڈ کر رہے تھے یہ جن وجوہ کی بناء پر پیش آئی تھی اور جو حالات پیش آئے تھے
اس سے منفی وحدت وجود پائی جس سے بلوچستان کا مستقبل ہولناک صورت اختیار کر سکتا ہے
کیونکہ سی پیک معاہدہ سے حکام کو تو بھر پور افادیت حاصل ہے۔لیکن عوام میں اب تک امداد رسائی نہیں ہوئی ہے۔سی پیک معاہدہ کی وجود و پذیرائی کے بعد بھی عوام کی وہی غربت و حالات سے مزاحمت جاری ہے ۔حقیقت میں دیکھا جائے تو نہ صرف گوادر بلکہ بلوچستان کیلئے یہ حالات ایک مشکل دور لے آئینگے کیا خبر کس سمت اور کس جہت سے اور کون سے سازشی عناصر مشکل دور لے آئیں۔ ہنوز بلوچستان کے عوام کی زندگی دن بدن اجیرن بنانے اور بلوچستان کی عوام کے خلاف شدت پسندی کا ڈھنڈورا رچا کر ما ورائے عدالت نسل کشی کے مختلف حربے استعمال کرکے مرکز کو کمزور کرنے کی جہد ہو رہی ہے۔ اس طرح کے سفاکانہ عزائم سے نہ صرف بلوچستان کی عوام کو بلکہ مرکز کو بھی نقصان پہنچے گا۔
عوام کے واسطے مرکز نے کیا کردار نبھایا ہے مرکز کو کیا مسائل در پیش ہیں اور کس چیز کاخوف لاحق ہے کہ وہ پیش قدمی نہیں کرتا۔ کھل کر اس وحشت زدہ فضاء کو ختم نہیں کرنا چاہتا اور عوام کے سامنے اپنی ساکھ کو برقرار نہیں رکھتا۔ عوام کے تاثرات بتا رہے ہیں یہ واضح ہے کہ عوام مرکز کے کردار سے ناخوش ہیں۔جب کوئی کسی کے کردار سے ناخوش ہو تو وہ خود سر ہوکر اپنے طور و طریقے سے حالات کا مقابلہ کرتا ہے چاہے وہ انتہائی الجھنوں و دشواریوں سے کیوں نہ گزر جائے، چاہے معاشرہ کو عوام کے طور طریقے سے نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
اگر مرکز استقلال چاہتا ہے تو بلوچستان کے عوام بھی مرکز کے وجود کے زیر سایہ ہو تو عوام کا ہمدرد بنے عوام کی افادیت کی خاطر دہشت زدہ فضاء سے عوام کو نجات دلائے۔