بلوچستان ملک کا وہ پسماندہ ترین صوبہ ہے کہ جسے حکمرانوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود وہ ترقی نہ مل سکا جس کا اعلان حکمران ون یونٹ کے خاتمے کے بعد کرتے چلے آرہے ہیں۔ سرار عطاء اللہ مینگل کی نو ماہ کی کم مدت کی حکومت اور دوسری مرتبہ نواب بگٹی شہید اور قوم پرستوں کے الائنس سے بننے والی حکومت کو چھوڑ کر دیگر تمام صوبائی حکومتوں کا تقابلی جاہزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائیگی کہ تمام مخلوط حکومتیں بر سر اقتدار آئیں یا یوں کہیں کہ لائی گئیں۔ وہ سب کے سب ’’مقتدر قوتوں‘‘کی منشاء اور ان کیساتھ طے پانے والے معاہدوں کے تحت ہی مسند اقتدار پر لاکر بٹھائی گئیں اور اس طرح انہیں عوام کی ’’منتخب حکومتیں‘‘قرار دی جاتی رہیں۔ یہ حکومتیں شروع دن سے ہی گردن پر ٹکتی تلوار کا احساس کرتی ہوئی خوف اور بارگیننگ یا بلیک میلنگ کا شکار رہیں۔
اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ کے سبب وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے یکسر محروم نظر آئیں اگر ہم حال ہی میں یعنی صرف چند سال پہلے بلیک میل ہونے والی حکومتوںیعنی نواب اسلم رئیسانی کی حکومت اور موجودہ حکومت جس کے سرخیل ڈاکٹر مالک بلوچ ہیں کا جائزہ لیں تو ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ گزرنے والی اور موجودہ حکومت اپنے اتحادیوں کی بلیک میلنگ کا شکا رچلی آ رہی ہیں۔ جس کے سبب یہ شخصیتیں یا پارٹیاں نہ صرف عوام کی نظروں میں اپنا عزت وتکریم کھوبیٹھی ہیں بلکہ ان کامستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ یاپھر ان کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوسکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ شخصیت یا حکومتیں پہلی اور آخری مرتبہ کے فارمولے پر اپنے اپنے ایام پوری کر کے ’’چلتا بننے‘‘ کا انتظار کر رہی ہیں۔ سابقہ صوبائی یعنی نواب اسلم رئیسانی کی حکومت سمیت مرحوم جام یوسف کی حکومتوں کا جائزہ لیں تو یہ حکومتیں عوام کو کوئی خاص کارکردگی نہ دکھاسکیں انہیں اگر چہ کسی ’’تھگڑے‘‘اپوزیشن کا بھی سامنا نہیں تھا۔ نواب رئیسانی کی تاریخی حکومت میں سردار یارمحمد رند کو چھوڑ کر باقی تمام وزیر بن گئے۔ یہ کابینہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تھی اور پیپلز پارٹی کی مرکز میں قائم حکومت اپنی پانچ سالہ طویل ترین حکومت کو قائم رکھنے میں تاریخ میں نام رقم کرنے میں کامیاب ہوئی ورنہ اس سے قبل کی تمام مرکزی اور صوبائی حکومتیں محض دو ڈھا ئی سال کے کم عرصہ تک محدود رہیں۔محلاتی سازشوں کی وجہ سے ان عوامی حکومتوں کو گھر کا راستہ دکھایا جاتا رہا۔ اور پھرملکی تاریخ پر غور کیا جائے تو تمام حکومتیں صابن کی جھاگ ثابت ہوئیں۔ ایک پنجاب(بڑے بھائی)والے صوبے کو چھوڑ کر دیگر چھوٹے صوبوں خصوصاً بلوچستان اور سندھ پر نظر دوڑائیں تو یہاں حکومتیں عوام کو ڈیلور کرنے میں یکسر ناکام رہیں بلکہ ان حکومتوں نے بدعنوانی، کرپشن، لوٹ مارکے نئے ریکارڈقائم کیے۔ بلوچستان کے جس شعبے کو دیکھیں تباہی وبربادی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کو دیکھیں یہ ایشیاء کا گندا ترین شہر قرار دیا چکا ہے جہاں کے شہری تمام بنیادی سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں ۔مقامی آبادی پہلے ہی سے مسائل کا شکار تھی ایسے میں افغان مہاجرین جن کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے یہ نازل ہوئے اور ایک سازش کے تحت نہ صرف ملک کے تمام بڑے شہروں خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آباد کروائے گئے۔شروع شروع میں افغان مہاجرین کے کیمپ قائم کر کے بیرون ملک خصوصاً امریکہ اور یورپی ممالک سے ڈالروں میں امداد لیتے رہنے کا ڈرامہ رچایا گیا جو کئی سالوں تک جاری رہا جب روسی افواج افغانستان کو چھوڑ کر واپس چلی گئیں۔ تب ان مہاجرین کو دی جانیوالی ’’خیرات‘‘میں کمی کرکے لاتعلقی برتی گئی۔ جس پر یہ مہاجرین بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت ملک بھرمیں پھیل گئے تھے، واپسی کی بجائے یہاں پر اربوں روپے کی جائیدادیں خریدنا شروع کردیں۔ اب تمام حالات ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح صوبوں کی اصل آبادی کو اقلیتی میں تبدیل کی گئی۔ سندھ میں سندھی اور بلوچستان میں بلوچوں کواقلیت ثابت کرنے کی کوشش ہر سطح پر ہورہی ہے اس کے لیے چاہے وفاق کی مدد کی ضرورت ہو یا صوبائی سطح پر، دونوں سطحوں پر کوششیں جاری ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہمارا کرپٹ نظام ان غیر ملکیوں کو ملکی بنانے میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ یہ افراد تمام تر سختیوں اور پاسپورٹ کی ڈرامہ بازیوں سے مبرا ہو کر پاک افغان بارڈریعنی چمن کے راستے جس بڑی تعداد میں بلوچستان میں داخل ہو رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکومتی ارباب اختیار خصوصاً ایجنسیوں نے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ جہاں تک افغان مہاجرین کی کیمپوں سے نقل کر شہری آبادیوں میں منتقلی اور آباد کاری کا تعلق ہے یہ کسی آسمانی آفت کے نتیجے میں نہیں آئی بلکہ یہ ایک پلاننگ کے تحت ہوا ہے اور مستقل ہورہا ہے۔ اس کا اختتام کب ہوگا اس بات ہمارے حکمرانوں کو بھی علم نہیں کیونکہ چھوٹے صوبوں کی قسمت کا فیصلہ ہمارے صوبوں کے نہیں بلکہ وفاق کے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں اس بات سے کیا لینا دینا کہ افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں جھوٹے صوبوں خصوصاً کوئٹہ کے گردنواح میں جس تیزی سے آباد ہو رہے ہیں جس سے واضح طور پر کوئٹہ کی قدیم آبادی یعنی بلوچ اقلیت میں تبدیل کرائے جا چکے ہیں۔اب موجودہ حکومت کے قیام پر نظر دوڑاتے ہیں تو مجھے بخوبی یاد ہے کہ موجودہ کمشنر قمبر بلوچ کو انتخابات سے قبل اچانک تبدیل کرکے کمشنر نصیر آباد لگا دیا گیا تاکہ ان قوتوں کے کھیل وتماشاکوجووہ کوئٹہ کی قدیم بلوچ آبادی کے خلاف رچانا چاہتے تھے۔ ایک بلوچ آفیسر کوکیسے گوارہ کرسکتے تھے۔ اس لے انتخابات کے اعلان کیساتھ ہی ان کا تبادلہ کر دیا گیا اور پھرپلاننگ کے تحت آنیوالے کمشنر نے جو کردارادا کیا وہ ہمارے سامنے ہے کہ آج کوئٹہ کا ایک ایم پی اے بھی بلوچ نہیں بلکہ تمام کے تمام غیر بلوچ ہیں حتیٰ کہ قدیم بلوچ آبادی سریاب جس کے بارے میں کسی اندھے سے بھی پوچھا جاتا ہے۔ تو وہ بھی یہ بتائے گا کہ سریاب بلوچوں کی قدیم آبادی ہے اس کا ایم پی اے ایک غیر بلوچ کو بنا دیا گیا ہے یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ کئی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا کہ بلدیاتی انتخابات میں اس قدیم آبادی کا کونسلر بھی افغانستان کے مہاجر کو جتوا کر بنایا گیا لیکن مجال ہے کہ کسی بلوچ پارٹی نے اس کا شدت سے نوٹس لیا۔ بلوچ اپنے کاغذات کی تصدیق کروانے یا دیگر بلدیاتی فنڈ کے لیے ان مہاجر کونسلروں کے دفاتر کے
چکرکاٹتے تھے۔ اس سے بڑھ کر تاریخ کا جبر کیا ہو سکتا ہے کہ ہم آج بھی اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اورغفلت کا برابر مظاہرہ کررہے ہیں۔ جس کا خمیازہ ہماری آنیوالی نسلیں بھگتیں گے۔ ملازمتوں کاحال ہمارے سامنے ہے بلوچ وزراء اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی پارٹیوں کے بل بوتے پر ایک دوسرے کو سبکی دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ان کے ملازمتوں پر اختلافات کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ سال سینکڑوں افراد نے قسمت آزمائی کیلئے درخواستیں جمع کر واہیں ابھی تک اختلافات کے باعث ان پر بھرتیاں نہیں ہوئیں بجٹ گزر چکا تمام فنڈ ’’لیپس‘‘ ہوگئے لیکن بلوچ وزراء کے اختلافات ختم نہ ہوئے جبکہ اس کے بر خلاف بلوچستان یونیورسٹی، بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری ایجوکیشن اور بلوچستان صوبائی اسمبلی میں حالیہ بھرتیوں کے بارے میں چھپنے والے بیانات آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں کہ ان مقامات پر کس قدر تعصب، بد دیانتی، تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی زبان بولنے والوں کوکس قدر ملازمتوں میں کھپایا گیا ہے اس کے لیے بعض مقامات پر ٹیسٹ وانٹرویوز کوبھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔ بلکہ ان کے لیے نرمی کرتے ہوئے انہیں پاس کر کے بھرتی کر کے یوں کہا جائے کہ ملازمتوں پر شب خون مارا گیا تو ہر گز جھوٹ نہیں ہوگا اخبارات میں تو اتر کیساتھ ان کے خلاف بیانات آتے رہے لیکن کیا مجال کہ وزیراعلیٰ ، گورنر اور عدلیہ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کیخلاف کوئی کارروائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا وزیر اور بیورو کریسی اس قدر گا مادرپدر آزاد ہے کہ وہ اپنے کسی غلط اور جانبداری کے عمل پر بھی اپنے آپ کو جواب دہ نہیں سمجھتا ۔ اس لئے اس کی مرضی اس کی بھنسیں والی بات ان پر صادق آتی ہے۔ باقی اخبارات میں ان ملازمتوں کے لیے ٹیسٹ انٹرویو کی تواریخ وغیرہ کی اشاعت سب ٹوپی ڈرامہ کے سواکچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ سفارش نہ رکھنے والے غریب اور حقدار نوجوانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ایک وزیر نے اپنی بیٹی کو بلوچستان یونیورسٹی میں ایڈھاک ملازمت پر گریڈ17میں بھرتی کرایا اور ایک سال کے اندر اندر وہ ’’صاحبہ‘‘ گریڈ19تک جاپہنچیں جس کی خبریں تک شائع ہوئیں، موبائل پر میسجز آئے لیکن مجال ہے کہ گورنر بلوچستان اور وائس چانسلر نے اس کا نوٹس لیا۔ یہ اس کا نوٹس کیونکر لیتے ۔اپنی دستخطوں سے جانبداری اور اقربا پروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقداروں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا اگر یہ کہا جائے کہ ان محکموں میں بھرتیاں خالصاً پارٹی ورکروں کے ساتھ ساتھ عزیز واقارب ،قریبی رشتہ داروں حتیٰ کہ ایک ہی خاندان پر مشتمل افراد کیلئے ہو رہی ہے تو ہر گز غلط نہیں ہوگا۔ اس کی مثال بلوچستان صوبائی اسمبلی میں ہونیوالی بھرتیاں ہیں کہ یہاں پر بھی وزراء کے بیٹے، بھتیجے، بھانجوں کو مختلف تواریخ میں بھرتی کیا گیا یہاں پر بھی بلوچوں کو ملازمتوں سے دور رکھا گیا اور ایک مخصوص زبان سے تعلق رکھنے والوں کوعلاقائی کوٹہ کے بر خلاف بڑی تعداد میں بھرتی کیا گیا۔ ان بھرتیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ایک اہلکار کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے گھر کے لگ بھگ12سے 15افراد بھرتی کئے گئے ہیں کیونکہ یہ اہلکار جو کل تک ایک کٹارے موٹر سائیکل پر گھومتا تھا اب کار، گاڑی اور لاکھوں روپے بینک بیلنس رکھنے والا بن چکا ہے۔ اس کے بارے میں نیب یا کوئی اور ادارہ حرکت میں آئے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا ۔اب وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ان کے ایک دو قریبی رشتہ داروں کو ان ملازمتوں میں رکھ کر ان کے منہ بند کر دئیے گئے ہیں انہیں ان زیادتیوں اور بلوچوں کو ملازمتوں سے بید خل کرنے کے ثبوت بھی دئیے گئے ہیں لیکن افسوس کہ وہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ان کے لب سیےے جاچکے ہیں۔ ایسے میں ’’انصاف‘‘ کر نے والے اداروں کے کار کردگی پر انگولیاں اٹھ رہی ہیں اور وہ وقت بھی شدت کیساتھ یاد آ رہا ہے کہ جب ایک الیکٹرانک میڈیا نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کی جس طرح کردار کشی کی مہم چلائی اس کی سابقہ تاریخ میں نظر نہیں ملتی۔ اس کے دفتر پر چھاپوں، سرکاری ریکارڈ قبضے میں لینے کی فلمیں چلائی گئیں، اور ان کی کردار کشی کیلئے تمام طاقت استعمال میں لائی گئی اس کے پیچھے کس لابی کا ہاتھ تھا یہ سب کو معلوم ہو چکا۔ اس بارے میں بتایا گیا کہ اس میں بلوچ دشمن یا مخالف قوتوں کا ہاتھ اور اس ادارے میں موجود ایک متعصب اہلکار کا ہاتھ شامل تھا جس کا اب تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ ادارہ بلوچستان یونیورسٹی، بلوچستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اور بلوچستان صوبائی اسمبلی میں بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں کی بھرتیوں کے بارے میں چھپنے والے بیانات پر کیوں خاموش ہے۔ اب ان اداروں پر چھاپے لگا کر ریکارڈ کیوں قبضے میں نہیں لئے جاتے اس لیے