ایک بار پھر بلوچستان قدرتی آفات کی زد میں آگیا۔ بیشتر اضلاع میں سیلابی صورتحال سے نظام زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سرکار کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ سیلاب اور طوفان سے بچاؤ سے متعلق کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی ، جس سے تباہ کاریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوجاتا ہے۔ خاندان کے خاندان سیلابی ریلے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ حکومتی ادارے قدرتی آفات کے تاک میں ہوتے ہیں۔ ہلاکتوں اور املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاتاہے۔ سروے کیا جاتا ہے۔ لوگوں سے ان کے شناختی کارڈز لئے جاتے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں روپے کے فنڈز کا بھی اجرا کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ فنڈز متاثرین اور مستحقین کے بحالی کے لئے خرچ نہیں ہوتے بلکہ سرکاری طورپر لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیوروکریسی اور وزراء کی موج ہوجاتی ہے۔ یہ الزامات نہیں ہیں بلکہ ماضی میں آنے والے سیلابوں اور طوفانوں کے آنے کے تناظر میں یہی دیکھاگیا ہے۔
1998 میں ضلع کیچ میں ایک بڑا سیلاب آیا تھا۔ سیلابی ریلا تربت کے علاقے مری آباد کی پوری آبادی کو اپنے ساتھ لے گیا۔ بیس سے تیس افراد سیلابی ریلے کی وجہ سے جان بحق ہوگئے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔ لوگ آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے تربت کا دورہ کیا اور پانچ کروڑ روپے امداد کا اعلان کیا لیکن بدقسمتی سے پانچ کروڑ روپے بندربانٹ میں چلے گئے۔ متاثرین کو ایک ٹکا تک نہیں ملا۔ سرکاری سطح پر موج اڑاؤ والی کہانی شروع ہو گئی۔
2007 میں میرانی ڈیم کے اردگرد آبادی میں سیلابی ریلے نے تباہی مچادی۔ اربوں روپے کے املاک کو نقصان پہنچا۔ کھیت کھلیان اجڑ گئے۔ بے شمار لوگ بے گھر ہوگئے۔ نقصانات کا سروے کرنے کے بعد ایک سے ڈیڑھ ارب روپے متاثرین کے لئے مختص کردیئے گئے۔ لیکن بدقسمتی سے آدھی رقم تقسیم کرنے کے بعد فنڈز کا اجرا ء روک دیا گیا۔ آج تک متاثرین سراپا احتجاج ہیں۔
اسی طرح دو ہزار دس اور دو ہزار بارہ میں نصیر آباد ڈویژن میں دو طوفانی سیلابوں نے تباہی مچادی دی تھی۔ متاثرین کی بحالی کے لئے اربوں اور کروڑوں روپے رکھے گئے۔ آج تک انہیں کچھ نہیں ملا۔ متاثرین کے پیسے کہاں گئے؟ کس نے ہڑپ کئے؟ یہ آج تک ایک راز ہے۔
2021 کو سمندری طوفان گلاب نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچادی۔ ماہی گیروں کی لانچیں اور کشتیاں تباہ ہوگئیں۔ نقصانات کا تخمینہ لگایاگیا پیسے بھی ریلیز ہوگئے لیکن آج تک لوگوں کو ایک روپیہ تک نہیں دیاگیا۔ بلکہ کھاؤ پیو عیش کرو کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
قدرتی آفات سے بچنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ شہروں میں سیوریج سسٹم ناکارہ ہوچکے ہیں۔ پورے سال میں تمام شہری آبادیوں میں نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہوچکاہوتا ہے۔ وہ عام حالات میں بھی سیوریج کا پریشر برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ بارشوں کے پانی کی نکاسی تو دور کی بات ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے رورل ایریاز میں بڑے بڑے بارانی دریا ہیں جو پانچ سو کلو میٹر سے لیکر دو ہزار کلومیٹر تک طویل ہیں جن میں دریائے ہنگول، دریائے بسول، دریائے مولہ، دریائے بولان، دریائے پورالی، دریائے کیچ، دریائے رخشان، دریائے ژوب سمیت دیگر دریا شامل ہیں۔ ان دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیمز بن سکتے ہیں۔ ڈیم نہ ہونے کے باعث اربوں اور کھربوں کیوسک پانی کے ریلے طوفان کی طرح آبادیوں کو تہس و نہس کردیتے ہیں۔ بستیوں کی بستیاں اجڑ جاتی ہیں۔ خاندان کے خاندان بے گھر ہوجاتے ہیں۔ سینکڑوں انسانی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ بارشوں سے ملنے والے کروڑوں کیوسک پانی کو اسٹور کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا ہے۔ وہ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ پانی کو اسٹور کرکے بلوچستان کی زراعت کو فروغ دیاجاسکتا ہے۔
حال ہی میں بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں بارشوں نے تباہی مچادی ہے۔مکران ڈویژن کے بیشتر علاقوں میں سیلابی صورتحال سے زندگی مفلوج ہوگئی۔ گوادر شہر میں فاضل چوک پر کشتیاں چلنے لگیں۔ سیوریج کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔ لوگ گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے علاقے کان مہترزئی، کوژک ٹاپ،لکپاس، زیارت،مسلم باغ،قلعہ سیف اللہ،سنجاوی سمیت دیگر اضلاع میں ندی نالوں میں طغیانی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔
گوادر کو سی پیک کا مرکز قراردیا جاتا ہے جہاں پورٹ کی ناک کے نیچے اور چند گز پر قائم ملا فاضل چوک پر سیلاب کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ یہ صورتحال حکومتی دعوؤں کی نفی کرتی ہے کہ سی پیک خطے میں ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ بھائی جان! گوادر کے عوام کو ترقی اور خوشحالی تو کجا انہیں صرف سیوریج کا نظام بھی میسرنہیں ہے۔ اتنے سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود گوادر شہر کو ایک اچھا سیوریج سسٹم نہیں دیاگیا۔ گوادر شہر میں نہ اچھی سڑکیں اور نہ ہی صحت کے مراکز قائم کئے گئے ہیں۔
گوادر میں مقامی افراد نے گھروں میں بارش کا پانی نکالنے کے لئے بالٹی سروس شروع کردی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان حکومت کی لوٹا سروس (لوٹا کریسی) سے عوام کی بالٹی سروس زیادہ موثر ہے۔ لوٹا سروس میں حکمرانوں کے چہرے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بالٹی سروس میں لوگوں کو ریلیف ملتا ہے۔
تحصیل پسنی میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بارشوں سے مجموعی طور پر ہزاروں گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔
ضلع گوادر کے دیہات میں کئی بند ٹوٹ گئے ہیں جس کے سبب لوگ رات بھر کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہوگئے۔
اسی طرح ضلع کیچ کی سب تحصیل بل نگور میں سیلابی ریلا گھروں میں داخل ہوگیا جبکہ متعدد کچے مکانات منہدم ہوگئے۔ اسی طرح تحصیل مند میں بارش نے تباہی مچادی۔ تربت کے مضافاتی علاقوں آسکانی بازار آبسر میں قائم جھونپڑیوں میں پانی داخل ہوگیا۔ جس سے پوری آبادی ساری رات جاگنے پر مجبور ہوگئی۔ تمپ سٹی میں بارش سے دو گیراج گرگئے جبکہ سرینکن تمپ میں بند کا پشتہ ٹوٹ گیا۔
حق دو بلوچستان تحریک نے پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے ) کو ایک ناکام اتھارٹی قراردے کر کہا کہ پی ڈی ایم اے قدرتی آفات سے نمٹنے میں ہمیشہ سے ہی ناکام رہی ہے۔ شدید بارشوں اور مشکلات میں پی ڈی ایم اے کا کردار زیرو ہے۔ پی ڈی ایم اے گوادر میں صرف کاغذوں اور فنڈز کی ہیرا پھیری تک محدود ہے. ایک ہفتے پہلے شدید بارشوں کے الرٹ جاری ہونے کے باوجود اس ادارے کے پاس کوئی حکمت عملی اور منصوبہ نہیں تھا بلکہ جو مشینری موجود ہے وہ بھی ناکارہ اور فرسودہ ہے۔
کہنے کو تو حکومت نے مکران کے دو تحصیل اور ایک سب تحصیل کو آفت زدہ قرار دے دیا جن میں تحصیل گوادر، تحصیل پسنی اور ضلع کیچ کے سب تحصیل بل نگور شامل ہیں۔
ماضی میں رونما ہونے والے قدرتی آفات کے فنڈز میں خرد برد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں ہوگا کہ قدرتی آفات سے حکومتی اداروں کے حکام کی چاندی ہوجاتی ہے۔ اور اربوں روپے سے اپنا منہ کالا کرتے ہیں۔
قدرتی آفات بھی دھندے کا سبب
وقتِ اشاعت : January 9 – 2022