گوادر اس وقت ترقی کے افق پر نمودار شہر مانا جاتا ہے۔ یہ شہر سی پیک کا مرکز بھی ہے اور دنیا کے منفرد اہمیت کے حامل گہرے بندرگاہ کا شہر بھی ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تکمیل کا منصوبہ پندرہ سال پہلے مکمل کیا گیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کو رابطہ سڑکوں سے ملانے کے لئے ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی قریب تر پہنچ چکا ہے اور سی پیک منصوبے کے تحت بہت سے منصوبے مکمل کئے جارہے ہیں۔
اتنے اہمیت کے حامل منصوبوں کا شہر ہونے کے بعد ذہن میں یقینا یہی تصور ابھر کر سامنے آئے گا کہ یہ شہر، شہری اور بنیادی سہولیات کی حامل بہترین مثالی شہر ہے یا یہاں پر وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ کیا گوادر واقعی ایسا شہر بن گیا ہے؟گوادر شہر میں خوبصورت کرکٹ گرائونڈ اور برقی قمقموں سے چمچماتی میرین ڈرائیو کی سوشل میڈیا پر تشہیر کے بعد کسی بھی شخص کے وہم و گمان میں یہ نہیں ہوگا گوادر روبہ ترقی کی بجائے روبہ زوال ہے۔ جب آپ گوادر کے بارے میں تصوراتی خیال سے باہر نکل کر زمینی حقائق کا بہ نفس نفیس جائزہ لینگے تو آپ کے سارے خواب چکنا چور ہوجائینگے۔
حالیہ بارشوں نے گوادر شہر میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ گوادر شہر تین یوسیز پر مشتمل ہے جس میں یوسی شمالی، یوسی وسطی اور یوسی جنوبی شامل ہیں۔ بارشوں کی تباہ کاریاں تینوں یوسیز میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ شہر کے زیادہ گنجان آبادی والے علاقوں میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔ کئی گھر ایسے بھی تھے جن کے صحن میں چھ سے سات فٹ پانی جمع ہوگیا تھا اور متاثر ہونے والے گھروں کے کمرے بھی پانی سے بھر گئے تھے جہاں گھروں کی ضرورت کی اشیاء پانی میں تیرتے ہوئے بھی نظر آئے۔
پانی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور بچوں کو کشتیوں میں بٹھاکر محفوظ مقام تک لے جایا گیا۔ یہ منظر اس سے پہلے بڑے بڑے دریاؤں کے کنارے آباد گاؤں میں سیلاب کے بعد دیکھنے میں آتے تھے لیکن گوادر جیسے ایمرجنگ شہر میں یہ منظر کشی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ملا فاضل چوک جسے گوادر کا تجارتی حب بھی کہا جاتا ہے وہاں پر کئی فٹ پانی جمع ہوگیا جس میں منچلوں نے کشتیاں بھی چلائے۔
گوادر شہر میں بارش برسنے کے حوالے سے محکمہ موسمیات نے پیشگی اطلاع بھی فراہم کی تھی لیکن شہر کی تنگ آبادیوں میں نکاسی آب کے لئے سیوریج اور ڈرینیج کی نالیوں کو صاف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نہ ہی بارش کے پانی کو آبادی میں داخل ہونے سے پہلے اس کا رخ تبدیل کرنے کے لئے متبادل انتظامات کئے گئے ۔ بارش برسنے کے بعد گوادر شہر پانی میں ڈوب گیا۔ گوادر بندرگاہ کی تکمیل کے بعد گوادر میں اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں پر بھی خرچ کئے گئے ہیں لیکن حالیہ بارشوں نے اس پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے۔ تاہم کسی بھی شہر میں بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے پہلے وہاں انسانی ترقی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو جواز بناکر ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے لیکن گوادر کی ترقی کے عمل میں شاید اس بنیادی رہنماء اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو حالیہ بارشیں اس کا پول نہیں کھولتے۔ گوادر کی ترقی کے عمل میں شہری سہولیات کا اب تک تعین نہیں کیا گیا ہے۔ شہری سہولیات اور بنیادی انفراسٹرکچر کا فقدان گوادر شہر کی پہچان بن گئے ہیں۔ گوادر شہر کی اہم سڑک سید ہاشمی ایونیو کی تعمیر کا منصوبہ 2015 سے تعطل کا شکار ہے۔ شاید کچھ لوگ گوادر شہر کی میرین ڈرائیو کی ساڑھے تین کلومیٹر سڑک اور کوہ باتیل کے دامن میں واقع سبزہ پر مبنی کرکٹ اسٹیڈیم کو گوادر شہر کی ترقی کا زینہ سمجھ رہے ہیں۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ گوادر شہر ملین ڈالر کے حامل سی پیک منصوبے کا مرکز ہونے کے باوجود شہری سہولیات کے فقدان کا شکار ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو بارش کے بعد گوادر کی صورتحال کو دیکھنے کے لئے ملابند وارڈ اور ٹی ٹی سی کالونی کی گلیوں کا چکر ضرور لگائے۔