آسلام آباد: مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی و خواتین پارلیمنٹرین کاکس کے سیکرٹری خزانہ رومینہ خورشید نے کہا ہے کہ کاکس کا مقصد خواتین اور محروم طبقات کی بہتر انداز میں قانونی و اخلاقی مدد کرنا ہے اس سلسلے میں قانون سازی کرکے انہیں جائز مقام دیا جا سکتا ہے خواتین کی سیاسی عمل میں بہتر نمائندگی کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی اور دیگر محروم طبقات کو نمائندگی دیگر انہیں ان کا جائز مقام دیا جا سکتا ہے کاکس وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر بھی قائم ہے اور صوبوں میں غیر قانونی اور ناروا سلوک کے خاتمے کیلئے صوبے بھی فعال کردار ادا کرکے محروم طبقات کو معاشرے بہترین ماحول میں زندگی گزارنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔
محروم طبقات کی آواز بلند کرنا اور ان کے حق کیلئے قانون سازی کرنا خواتین پارلیمنٹرین کاکس کی ترجیحات میں شامل ہیکاکس محروم طبقات کیلئے آئین میں ترامیم کرکیانہیں موثر بنانے کیلئے عملی کردار ادا کر رہی ہے خیالات کا اظہار انہوں نے ڈی ٹی ای اے کی جانب سے منعقدہ ٹریننگ کے دوران قومی اسمبلی میں خواتین پارلیمنٹرین کاکس چیمبر میں معروف صحافی اعزاز سید کی قیادت میں سندھ بلوچستان خیبر پختون خواہ کے صحافیوں کے نمائندہ وفد کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا وفد میں یاسین جونیجو، میڈیم سارہ حبیب الرحمن عبدالاحد آغا اور ولی محمد زہری شامل تھے رومینہ خورشید نے کہا کہ وومن پارلیمنٹرین ورکنگ کونسل کاکس 2008 میں اس وقت کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے بنائی تھی جس کا واضح مقصد خواتین اور محروم طبقات کو ٹیکنیکلی مدد فراہم کرنا تھا اور ساتھ ہی ان محروم طبقات کو ان کا جائز مقام دلانا تھا خواتین معاشرے کی نصف آبادی اور انتہائی حساس طبقہ ہے جنہیں مختلف مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے خواتین پارلیمنٹرین کاکس خواتین کی کم عمری میں شادی تشدد غیرت کے نام پر قتل خواتین کی ٹریفیکنگ مینارٹیز کے مسائل چائلڈ ایشوزسیمت دیگر مسائل پر سخت قوانین واضح کئے جا رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے قوانین پر حکومت اب عمل درآمد کرا رہی ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین مینارٹیز چائلڈ اور خواجہ سراء محروم طبقات میں شامل ہیں خواجہ سراوں کو معاشرے میں عزت و اہمیت دلانا ہماری کمیٹی کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور انہیں باوقار شہری بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں بہترین انسان سمجھنا ہوگا ملک میں اب خواجہ سراوں کے شناختی کارڈز بن رہے ہیں اور اب امید ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ان محروم طبقات کیلئے اسپیشل اور خصوصی قانون سازی کرکے انہیں بہترین انداز میں جینے کا حق دینگے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق اور ریسرچ کے بغیر قانون سازی سے مسائل ہیدا ہوتے ہیں اوربعد ازاں اس طرح کی قانون سازی پر عمل درآمد ہی نہیں ہوتا وومن پارلیمنٹری گروپ کی کوششوں سے اب تک مسلم فیملی لاء ہندو میرج لاء چائلد ریسسٹینٹ لاء اینٹی ہراسمنٹ لاء اور پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی منظوری وترامیم کی گئی ہیطجس سے ان محروم طبقات کو فائدہ حاصل ہوگا انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے قوانین صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں جس کے باعث وفاق صوبوں سے سوال کر سکتا ہیلیکن صوبے ان مسائل پر خود ہی قانون سازی کر سکتے ہیں۔