|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2015

کوئٹہ:  بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے مشکے میں ریاستی فورسز کی زمینی و فضائی کاروائیوں، اندھا دھند شیلنگ ، گھروں کو لوٹنے و جلانے اور درجنوں بلوچ فرزندان کو شہید کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مشکے طرز کی کاروائیاں دشمن کی نفسیاتی شکست و انسانی جذبات سے عاری ذہنیت کی عکاس ہیں۔نہتے و عام لوگوں پر طاقت کا بے دریغ استعمال اور شہدا کے لاشوں کی بے حرمتی کرکے بلوچ عوام میں خوف پھیلانا چاہتے ہیں، تاکہ آزادی کی تحریک سے عوامی وابستگی کو بزور طاقت ختم کیا جا سکے، انہوں نے کہا کہ قابض کو یہ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ بلوچ عوام پاکستانی قبضے سمیت کسی بھی ملک کی بلوچستان میں سرمایہ کاری و بلوچ عوام کی استحصال کو برداشت نہیں کر سکتی۔ سرمایہ کاروں کے دباؤ سے بچنے اور بلوچستان کے وسائل سے کروڑوں ڑالر حاصل کرنے کے لئے بلوچ قوم کی نسل کشی پر اُتر آئی ہے۔ نسل کشی میں شریک فوجیوں کے جذبات بلوچ عوام کے خلاف بڑھکا کر انہیں وحشی بنا دیا جاتا ہے جہاں وہ کاروائیوں کے دوران جنگی قوانین و اخلاقیات کا خیال کیے بغیر جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ مشکے میں کاروائی کے دوران شہید کیے جانے والے فرزندان کے لاشوں کی بے حرمتی، خواتین پر تشدد اور تین دنوں تک خواتین و بچوں کو یرغمال کرنے جیسے اعمال فورسز کی بلوچ عوام سے شدید نفرت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مشکے میہی میں کاروائی کے دوران اسکول ٹیچر سفر خان بلوچ سمیت ایک درجن سے زائد بلوچ فرزندان کو شہید جبکہ ماسٹر ناصر بلوچ سمیت ایک درجن کے قریب بزرگ بلوچوں کو فورسز نے اغواء کرلیا ۔ میہی کے تمام گھروں کو نظر آتش کرکے قیمتی سامان اور بھیڑ بکریوں کو بھی لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے، اس سے پہلے بھی فورسزنے کئی بار میہی کے گھروں کو بمباری کرکے منہدم کردیا ہے، ترجمان نے کہا کہ بلوچستان بھر میں ریاستی فورسز کی طاقت کا وحشیانہ استعمال روز بہ روز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، عام آبادیوں و گھروں کو نشانے بنانے کی کاروائیاں روز کا معمول بن چکے ہیں۔ بلوچستان میں جار ی قومی آزادی کی تحریک کو کمزور کرنے اور بلوچ سیکولر معاشرے کا چہرہ مسخ کرنے کے لئے فورسز فوجی طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ مذہبی شدت پسندوں و فرقہ واریت پھیلانے والے گروہوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ جو نہ صرف بلوچ معاشرہ بلکہ خطے کی امن و سلامتی کے لئے بھی سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عالمی میڈیا و انسانی حقوق کی تنظیموں نے ریاستی جبر کے خلاف آواز اُٹھانے کے بجائے اپنا خاموشی برقرار رکھا تو اس گناہ میں وہ بھی برابر کے شریک رہیں گے۔