خاران : ایران تیل کے کاروبار سے منسلک وفد کا مسلم لیگ (ن )رخشان ڈویژن کے صدر سرور بلوچ کی قیادت میں کمشنر رخشان ڈویژن سے ملاقات کی ملاقات میں وفد نے ایم پی اے خاران ثنا بلوچ کاکمشنر رخشان ڈویژن سیف اللہ کھیتران کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا کمشنر رخشان ڈویژن سیف اللہ کھتیران نے کہا کہ یہ فیصلہ وفاق سے ہے البتہ میں علاقائی سطح پر متعلقہ لوگوں سے بات کرکے اس مسلے کو ہر ممکن حل کرنے کی کوشش کرونگا۔
تاہم اس موقع پر ایم پی اے خاران ثنا بلوچ نے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پہنچنے والے سمگل شدہ تیل کی مصنوعات صوبے کی صنعت، زراعت، ماہی گیری اور دوسرے شعبوں کی تیل کی ضرویات کو پورا کر رہی ہے۔ تاہم اب بلوچستان میں تیل کی ضروریات پوری کرنا بحرانی کیفیت سے دوچار ہے بلوچستان کے نصف سے زائد علاقوں میں تیل کے بحران کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے کیونکہ گذشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے ان علاقوں میں پاکستانی تیل کمپنیوں کی جانب سے تیل فراہمی کی سہولت موجود ہی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا ہمارے نوجوان تحصیل ماشکیل سے تیل لا کر اپنے خاندان کی کفالت کررہے ہیں بلوچستان میں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں خاران کے نوجوان تیل بردار گاڑیوں پر پابندی کے باعث لوگوں کا معاشی استحصال ہورہاہے انہوں نے کہا کہ اپنے بے روزگار تیل بردار نوجوانوں کا احساس ہے ان کی آواز اسمبلی فلور میں بھی اٹھا ہوگا ۔
خاران سمیت بلوچستان کے دیگر دور دراز اضلاع کے لوگوں کا نہ صرف تیل کے لیے انحصار ایران پر ہے بلکہ بہت ساری اشیائے خورد و نوش بھی وہاں سے آتی ہیں۔ ان علاقوں میں نہ کوئی کارخانہ لگایا گیا ہے اور نہ ہی معاش اور روزگار کے دوسرے ذرائع ہیں اس لیے لوگوں کے روزگار اور معاش کا انحصار بھی ایرانی اشیا بالخصوص ایرانی تیل پر ہے۔ ایرانی تیل کی بندش سے نہ صرف ان اضلاع میں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے بلکہ ان کی طرح بلوچستان کے پورے تین ڈویژن رخشاں، مکران اور قلات میں لوگوں کو تیل کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے قلت کے باعث ایرانی تیل کی قیمت 130 روپے سے اوپر تک پہنچ گئی۔
اس سے قبل یہی تیل 75 روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا تھا۔ جبکہ بلوچستان میں صرف لوگوں کے سفر کا انحصار ایرانی تیل پر نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں زراعت، مائننگ، ماہی گیری اور کاروبار کے دیگر شعبوں کا انحصار بھی ایرانی تیل ہی پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمپنیاں جس قیمت پر تیل فراہم کر رہی ہیں غربت کی لکیر سے زندگی نیچے زندگی گزارنے والے بلوچستان کے لوگوں کا کاروبار اس پر چل نہیں سکتا ہے۔