تربت: آل پارٹیزکیچ کے کنوینر خان محمد جان نے تربت پریس کلب کے پروگرام گند ء ْ نند سے خطاب کرتے کہاکہ پاکستان میں جب سے عام انتخابات کا سلسلہ شروع ہوگیاہے تب سے یہ دھاندلی زدہ ہیں ہر الیکشن کوہائی جیک کیاگیاہے، 1964ء سے لیکر 2018ء کوئی بھی الیکشن صاف شفاف اور غیرجانبدارانہ نہیں رہاہے،1970کے الیکشن کو شفاف توکہاجاتاہے مگریہ شفاف نہیں تھے، جبکہ2013ء اور2018ء کے الیکشن میں تو سب کچھ ببانگ دہل کیاگیا، 2013ء کے الیکشن میں پی این پی عوامی کی جیت کو ہارمیں بدلاگیا، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نواب شمبے زئی نے کہاکہ 2018ء کے الیکشن تاریخ کے بدترین الیکشن تھے۔
اس سے قبل عام انتخابات میں دھاندلی کی جاتی رہی مگر 2018ء کے الیکشن میں ہمارے حلقہPB-45کیچIکی نشست پر 70پولنگ اسٹیشنز میں سے صرف2پولنگ اسٹیشن الندور اورمیناز میں پولنگ وقت مقررہ تک جاری رہی جبکہ باقی68پولنگ اسٹیشنوں پر دن 3بجے سے قبل بیلٹ بکس اٹھائے گئے اورکہیں اورلے جاکر انہیں بھراگیا، طاقت کے استعمال کے ذریعے عوامی مینڈیٹ پر ایسی شب خون سے عام انتخابات کامقصد ہی فوت ہوجاتاہے، اس سفاک غیرجمہوری عمل کا راستہ روکنا تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اورملکی سطح پر پی ڈی ایم اس حوالے سے مصروف جدوجہدہے جس کے اچھے اورمثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے ان کاکہناتھا کہ عوام کے حقیقی ایشوز اس وقت حل ہوسکتے ہیں جب عوام کے حقیقی نمائندے ان کی نمائندگی کریں، بلوچ سیاست کوختم کرنے کیلئے ایک ایسی فضاء بنائی جارہی ہے بلوچ کو سیاسی عمل سے دور رکھاجارہاہے،نواب بگٹی اورشہید غلام محمد کی شہادت کے بعد جس جذباتی ماحول نے جنم لیا جس کے اثرات بلوچ سیاست پرمنفی پڑے جذباتی ماحول نے بلوچ کو نقصان پہنچایا، وہ نوجوان ہمارا مستقبل تھے وہ اٹھائے گئے، شہید کئے گئے۔
سیاسی جماعتوں کیلئے ماحول گھٹن زدہ ہوگیا اور سیاسی میدان پر قبضہ کیلئے راتوں رات پارٹی کھڑی کی گئی، کاٹن گروپ اورمافیا متعارف کرائے گئے، گونگے نمائندے اسمبلیوں میں پہنچائے گئے، آئینی وقانونی دائرے کے اندر رہ کر جدوجہد کے راستے اختیارکرکے بہتراوردیرپا نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، سیاسی پختگی کی کمی ہے، غیر یقینی سیاسی ماحول نے سیاسی جماعتوں کیلئے خوداپنی بقاء کامسئلہ پیداکردیا، جمہوری پارلیمانی نظام کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے، جماعت اسلامی کے رہنما غلام یاسین بلوچ نے کہاکہ ایوب خان کے صدارتی الیکشن سے دھاندلی کا جوسلسلہ شروع ہواتھا وہ ہرنئے الیکشن کے ساتھ بڑھتا گیا اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب عوامی مینڈیٹ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، 1970ء کے الیکشن کی شفافیت کی بات کی جاتی ہے مگر آئی بی کے ایک سابق سربراہ خود اعتراف کرچکے ہیں کہ 70ء کے الیکشن میں مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی کلین سوئپ کررہی تھی مگر اسے کلین سوئپ کے بجائے کلین بولڈ کردیاگیا، الیکشن میں عوامی مینڈیٹ پر شب خون کا سلسلہ اس وقت تک چلتارہے گاجب تک عوامی طاقت میدان میں نہ آئے، اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو سودابازی اورمصلحت پسندی سے گریز کی پالیسی اپناناہوگی، بی این پی عوامی کے رہنما کامریڈ ظریف زدگ نے کہاکہ الیکشن میں دھاندلی توپورے ملک میں کی جاتی ہے مگربلوچستان میں یہ پریکٹس کچھ زیادہ ہے، بلوچستان میں اب دھاندلی پر پردہ ہی نہیں رہا، اب تو الیکشن سے قبل پارٹی بنائے جاتے ہیں، بچہ بچہ جانتاہے کہ الیکشن فیئر نہیں ہوتے، عام انتخابات میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے سے ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان فاصلے پیداہوئے ہیں، سیاسی جماعتوں کو ایسی مکروہ پریکٹس کے خلاف ڈٹ جانا ہوگا، نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی رحیم بخش چیف نے کہاکہ 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی اور ٹھپہ ماری بام عروج کوپہنچ گیا۔
الیکشن سے قبل کنگ پارٹی بناکر میدان میں اتارا گیا، عوام کے ووٹ کا تقدس ختم ہوکر رہ گیا، اب عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ووٹ کا کیافائدہ؟ ووٹ کسی اور امیدوار کو ڈالے جاتے ہیں کامیاب کوئی اورہوتاہے، ایسی الیکشن صرف دکھاوا اور عوام کو دھوکہ دینے کے سواکچھ نہیں، نیشنل پارٹی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ووٹ کے تقدس کی بحالی کیلئے جدوجہد کررہی ہے، ٹھپہ ماری کا راستہ روکنے کیلئے نیشنل پارٹی عوام کوموبلائزکررہی ہے، ریکوڈک، سیندک، سوئی گیس سمیت ساحل وسائل کے تحفظ کیلئے حقیقی قیادت ضروری ہے، موجودہ گھمبیر صورتحال میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت بڑھ چکی ہے، جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا عبدالقدیر مینگل نے کہاکہ پاکستان میں کبھی بھی کوئی بھی الیکشن صاف وشفاف نہیں رہے، پہلے چند مخصوصحلقوں میں دھاندلی ہوتی تھی مگر اب پوراالیکشن ہائی جیک ہوتے ہیں،جوقوتیں نادیدہ تھیں انہوں نے 2018ء کے الیکشن میں باورکرایا کہ وہ ہی اصل طاقت ہیں ہم ہی سب کچھ ہیں اورپورے ملک کے الیکشن کوہائی جیک کرسکتے ہیں، عوام کے ووٹوں کی کوئی اہمیت اورتقدس نہیں ہے، جے یو آئی نے دھاندلی زدہ الیکشن کوتسلیم نہیں کیا اورپی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر منظم تحریک چلائی رہی ہے، مکران میں بھی اسی طرح کی مضبوط اتحادکی ضرورت ہے کیونکہ مکران میں سب سے زیادہ دھاندلی کرائی جاتی ہے، سیاسی جماعتوں کو سودابازی سے گریز کرکے اپنے سیاسی ایجنڈے کے تحت جدوجہد کرنا چاہیے۔اس موقع پر تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزاردوست، پی این پی عوامی کے عبدالغفور گٹور، سراج بیبکر، سماجی کارکن یاسین دشتی ودیگر شریک تھے۔