|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2022

گوادر پھر سے خبروں کی زینت بننے جارہا ہے۔ گوادر تو ہمیشہ سے خبروں کی زینت میں ہے۔ پھر ایسا کیا ہونے جارہا ہے کہ گوادر خبروں کی شہہ سرخیوں میں آرہا ہے؟۔ گوادر سنیٹر محمد اسحاق کرکٹ اسٹیڈیم کی جلوہ نمائی کے بعد اب بابائے استمان میر غوث بخش بزنجو فٹبال اسٹیڈیم کی خوبصورتی کے چرچے شروع ہوگئے ہیں۔ آج کل یہ فٹبال اسٹیڈیم اپنے سبزہ زار اور فلڈ لائٹس کی وجہ سے خبروں میں چھا جانے والا ہے۔

فٹ بال سٹیڈیم کی تعمیر نو ادارہ ترقیات گوادر یعنی جی ڈی اے نے کی ہے۔ اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش پر ایک کروڑ 63 لاکھ روپے کی لاگت آئی ہے۔گوادر کا خوبصورت کرکٹ اسٹیڈیم اور نو تعمیر شدہ فٹبال اسٹیڈیم قریب قریب واقع ہیں۔ کرکٹ اسٹیڈیم گوادر پورٹ کو جانے والی سڑک کے مغربی جانب کوہ باتیل کے عین دامن میں واقع ہے جبکہ فٹبال اسٹیڈیم منی پورٹ (جی ٹی) کو جانے والی سڑک کے بغل میں مشرق کی طرف پڑتا ہے۔ گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کا سحر دنیا بھر میں چھایا ہواہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی خوبصورتی کے بڑے چرچے ہیں۔ اب گوادر فٹبال اسٹیڈیم کی سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی تصویروں کے بعد اس کے چرچے شروع ہونگے اور فٹبال اسٹیڈیم کی اِس خوبصورتی کا سحر بہت جلد سوشل میڈیا پر قدم جمائے گا۔

کسی بھی ابھرتے ہوئے شہر کی ترقی کے لئے پبلک مقامات کو خوبصورتی سے سجاکر پیش کرنا بنیادی تقاضا ہوتا ہے کیونکہ کھنڈر نما شہروں میں باقی دنیا کی توجہ مبذول کرانا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ گوادر شہر ایک جزیرہ نما شہر ہے اور قدرت نے اسے غیر معمولی محل و وقوع سے نوازا ہے۔ گوادر کرکٹ اسٹیڈیم اور فٹبال اسٹیڈیم سالوں پہلے مٹی اور کنکر کے گراؤنڈ تھے لیکن جی ڈی اے نے مذکورہ کھیل کے میدانوں کی تزئین و آرائش کرکے دنیا کو متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ شہری آبادیاں ترجیحات کا کب حصہ بنیں گی وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہاں اب کسی بھی سرکاری بریفنگ میں پیش کی جانے والی سلائیڈ میں خوبصورت فٹبال اسٹیڈیم کا بھی ضرور اضافہ ہوگا۔ گوادر کے کرکٹ اور فٹبال کے یہ دونوں اسٹیڈیم یوسی جنوبی کے حدود میں آتے ہیں۔ یوسی جنوبی یہاں کے جفاکش ماہی گیروں اور دیگر پیشہ سے تعلق رکھنے والے مکینوں کا علاقہ ہے۔

لیکن یہاں زیادہ تر ماہی گیر گھرانے بستے ہیں۔ ملابند وارڈ، شادی بند وارڈ اور ڈھوریہ کی بستیاں خوبصورت کرکٹ اور فٹبال اسٹیڈیم کے قریب بستے ہیں لیکن شومئی قسمت کہیں یا منصوبہ ساز اداروں کی کج نظری کہ یہ انسانی بستیاں اب تک سوشل میڈیا یا سرکاری بریفنگ میں اپنی خوبصورتی کا سحر طاری نہ کرسکے۔اِن بستیوں کا تذکرہ اْس وقت ہوتا ہے جب بارشوں کے بعد نکاسی آب کے مسئلے سے دوچار متاثرین جان بچانے کے لئے کشتی کا سہارا لیتے ہیں یا پانی کا راستہ تبدیل کرنے کے لئے خوبصورت کرکٹ اور فٹبال اسٹیڈیم کی طرف جانے والی سڑک کو توڑتے ہوئے سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر میں نظر آتے ہیں۔