کوئٹہ: سینئر صحافی و دانشوروں نے کہا ہے کہ لالہ صدیق بلوچ بلوچستان نے بلوچستان کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑا ، ان کا صحافت میں کوئی ایجنڈا نہیں تھاوہ بلوچستان کے سفیر تھے ،قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود کبھی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ نوجوانوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے والی شخصیت تھے۔
یہ بات پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سینئر نائب صدر وصحافی سلیم شاہد ، کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند،، چیئرمین بلوچی اکیڈمی سنگت رفیق بلوچ نے اتوار کو بلوچی اکیڈیمی میں سنیئر صحافی ، دانشور ، مصنف لالا صدیق بلوچ کی چوتھی برسی کے موقع ان کے کالموں کے مجموعہ کے بلوچی تراجم کی کتاب “صدیق بلوچ ء گچین اوتاگ” کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی ، اس موقع پر بلوچی اکیڈیمی کے سابق چیئرمین ممتاز دانشور واجہ جان محمد دشتی ، کوئٹہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری بنارس خان ، سنیئر نائب صدر محمد افضل ، کوئٹہ پریس کلب کے سابق صدر رضاالرحمٰن ، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ ، سنیئر نائب صدر نور الہیٰ بگٹی سمیت بلوچی اکیڈمی کے ممبران اور صحافیوں کی کثیر تعداد موجود تھی ، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سینئر نائب صدر و لالا صدیق بلوچ کے قریبی دوست سینئر صحافی سلیم شاہد نے کہا کہ لالا صدیق بلوچ ہمیشہ نوجوان صحافیوں کو یہ ترغیب دیتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پڑھنے کو ترجیح دیں کیوں کہ اگر وہ پڑھیں گے نہیں تو لکھ بھی نہیں سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ لالا صدیق بلوچ کیساتھ قریبی روابط کے ساتھ ان کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت بیرون ملک جانے کا موقع ملا وہ جہاں بھی گئے انہوں نے بلوچستان کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑا وہ بلوچستان کے سفیر تھے اپنی قلمی جدوجہد سے انہوں نے بلوچستان کو درپیش مسائل اور مستقبل کے چیلنجز کی نشاندہی کی ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت کم صحافی ہیں جو اپنی صحافت کو صحافت کے فروغ کیلئے بروئے کار لائے ہیں اور لالا صدیق بلوچ انہی صحافیوں میں سے ایک تھے ، انہوں نے کہا کہ صحافت کے شعبہ میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کا ہدف اپنے معاش میں اضافہ کرنا ہوتا ہے مگر لالا صدیق بلوچ نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا وہ کہتے تھے کہ اگر ہم اپنی زبان میں نہیں بولیں گے تو اپنی زبان بھول جائیں گے ، لالا صدیق بلوچ نہ صرف ملک کے نامور صحافیوں کے استاد رہے۔
بلکہ انہوں نے ملک میں صحافت کو ایک جلابخشی ، اپنے سیاسی سفر میں وہ میر غوث بخش بزنجو کے رفیق رہے ، حیدرآباد سازش کیس میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر انہوں نے مصائب اور مشکلات کو اپنے نظریہ پر حاوی نہیں ہونے دیا انہوں نے بلوچستان پر ملک کے بڑئے انگلش اخبار میں سو صفحات پر مشتمل ایک خصوصی ایڈیشن شائع کرکے منفرد اعزاز اپنا نام کیا صحافت کے شعبہ میں آج بھی ان کی کمی محسوس ہوتی ہے ، کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند نے کہا کہ لالا صدیق بلوچ آنے والے چیلنجز سے آگاہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے صحافی و دانشور تھے انہوں نے جن حالات کی پیشگوئی کی تھی صوبے میں آج وہی حالات ہیں ، لالا صدیق بلوچ ہمیشہ دلائل اور منطق کی بنیاد پر بات کرتے تھے ، لالا کو سفیر بلوچستان کا لقب دیا گیا جو بالکل درست ہے وہ بلوچستان کی موثر اور توانا آواز رکھتے تھے۔
ہمیشہ بلوچستان کا مقدمہ لڑتے رہے ، سیندک اور ریکوڈک پر ہمیشہ صوبے کے حق کی بات کی وہ ساری زندگی ورکنگ جرنلسٹس کے طور پر کام کرتے رہے ، چیئرمین بلوچی اکیڈمی سنگت رفیق بلوچ نے لالا صدیق بلوچ کو ان کی سیاسی ، صحافتی و ادبی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ لالا صدیق بلوچ رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے والی شخصیت تھے صحافت میں ان کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا ، انہوں نے اصولی صحافت کو ترجیح دی جس کی پاداش میں انہیں مصائب اور مشکلات کا بھی سامنا رہا لالا صدیق بلوچ نے گو کہ انگلش اور اردو میں اخبارات کی اشاعت کو ممکن بنایا تاہم ان کا ہدف براہوئی اور بلوچی زبانوں میں اخبارات کی اشاعت تھی ، انہوں نے 2016ء میں بلوچی صفحہ کی اشاعت کا بھی آغاز کیا ساتھ ہی انہوں نے بلوچی اور براہوئی زبانوں میں دو الگ الگ اخبارات کی ااشاعت کیلئے بھی کوششوں کا آغاز کیا تاہم زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کیا امید ہے ان کے صاحبزادے ان کے اس مشن کو پورا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ لالا صدیق بلوچ نے بلوچی اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے زبان وادب کی ترقی وترویج کیلئے بھی ہمیشہ پیش پیش رہے ،لالا صدیق بلوچ کے صاحبزادے و کوئٹہ پریس کلب کے سابق جنرل سیکرٹری ظفر بلوچ نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔