بلوچستان کے عوام کو دہائیوں سے شکایت ہے کہ ملازمتوں میں ان کو ان کا جائز حق نہیں دیا جاتا ۔ بلوچستان کے نام پر جان بوجھ کر غیر بلوچوں کی سرپرستی کی جاتی رہی اور یہ عمل آج بھی جاری ہے ۔ بلوچستان کے کوٹے پرنچلے درجے کی چند ملازمتیں رکھی جاتیہیں اور وہ بھی وفاقی اداروں میں جو اسلام آباد اور لاہور میں ہیں، بلوچستان کا کوئی شخص ان ادنیٰ درجے کی ملازمتوں میں دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ ان کی قلیل تنخواہ سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہوتا ہے اس لیے لوگ نہیں جاتے ۔ اس کا فائدہ دوسرے لوگ اٹھاتے ہیں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دوسرے صوبوں کے لوگ خصوصاً پنجاب کے لوگ بلوچستان میں تعینات ہوتے ہیں اور وہ اپنے تعیناتی کے دوران اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے اپنے رشتہ داروں ‘ عزیزوں کے جعلی ڈومیسائل بناتے ہیں جب کبھی مناسب ملازمت کے امکانات ہوتے ہیں وہ بلوچستانی بن کر ملازمت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ کام گزشتہ نصف صدی سے ہورہاہے آج تک کوئی جعلی ڈومیسائل رکھنے والا شخص نہیں پکڑا گیا اور نہ ہی اس بنیاد پر ملازمت سے بر طرف ہوا ہے ۔ بلوچستان میں معاشی صورت حال انتہائی خراب ہے ۔ روزگار کے تمام مواقع صرف اور صرف سیاسی بنیادوں پر بند ملتے ہیں ۔ آج تک بلوچستان کے طول و عرض میں کوئی کار خانہ نہیں لگایا گیا سوائے حب اور اس کے اطراف میں ۔ وہاں بھی ملازمتوں پر کراچی والوں کا قبضہ ہے ۔ وہاں چپڑاسی اور چوکیدار صرف مقامی لوگ ہیں ۔ اسی طرح اربوں روپے منافع کمانے والے گیس اور تیل کے اداروں میں بھی بلوچ صرف چوکیدار اور چپڑاسی ہیں ۔ حکومت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ بلوچستان میں بے روزگاری کے مسئلے کو حل کیاجائے ۔ پرانے پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے بلوچستان کے طول و عرض میں کارخانے لگائے جائیں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں ۔ افسوس کی بات ہے ایران کی مدد سے د و ٹیکسٹائل ملوں کو بنایا اور چلایا گیا ۔ جنرل مشرف کی حکومت میں انہوں نے دونوں ملوں کو صرف اس لیے بند کیا کہ ان سے 18ہزار لوگوں کو روزگار مل رہا تھا اس کی مشینری سابق گورنر اویس احمد غنی نے 65کروڑ کے بجائے 16کروڑ میں خریدا ۔ اس کی بلڈنگ کو منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی کے لئے استعمال کیا تاکہ اس پر شورنہ مچایا جائے ۔ دوسری جانب صوبائی حکومت ہر سال صرف چند ہزار افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے حالانکہ کالج اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلباء کی تعداد 25ہزار سالانہ ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت بلوچستان سالانہ 50ارب روپے سے زیادہ کے ترقیاتی پروگرام پر عمل کرتی ہے اور اس سرمایہ کاری سے گزشتہ پچاس سالوں میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے نہ ہی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو ا۔ پی ایس ڈی پی کی رقم سے ایم پی اے حضرات سوئمنگ پول بنا رہے ہیں ۔ پرائیویٹ اداروں کی عمارت تعمیر کررہے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں پی ایس ڈی پی کی تمام رقم ضائع جارہی ہے اس لیے کہ یہ ایم پی اے حضرات کی ذاتی دولت سمجھی جاتی ہے ۔ایم پی اے حضرات کی مرضی ہے کہ اس کو کہاں خرچ کرے۔ ایک مرتبہ مرحوم نواب اکبر بگٹی نے بہ حیثیت وزیر اعلیٰ یہ اعلان کیا کہ وہ ان تمام اسکیموں کی تحقیقات کرائیں گے جن پر ایم پی اے حضرات نے قومی دولت صرف کی ہے ۔اس پر قیامت اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اتنا شور ہوا اور بگٹی صاحب کو بلیک میل کیا گیا کہ ان کو ووٹ کے ذریعے وزارت اعلیٰ سے ہٹائیں گے۔ آج تک نیب نے کسی بھی ایم پی اے اسکیم کی تحقیقات نہیں کی ۔وزیروں نے اربوں روپے ہڑپ کر لیے، ان کو کچھ نہیں ہوا ،ا ن کو کچھ بھی نہیں کہا گیا ۔ اس کے برعکس ادنیٰ ملازمین یا لاوارث سابق ملازمین پر مقدمہ پر مقدمہ بنائے جارہے ہیں ۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ پی ایس ڈی پی کی پوری رقم صوبے میں صنعتی ‘ زرعی اور معدنی ترقی کے لئے استعمال ہو ۔ اس فنڈ کو انسانی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے ،بچوں کو اچھی سے اچھی تعلیم دی جائے ۔ انسانی وسائل پر سرمایہ کاری کی جائے ۔ جعلی ڈومیسائل کے ڈھول بجانا فضول ہے ۔ اس سے لوگوں کو ملازمتیں حاصل نہیں ہو سکتیں ۔ البتہ وفاق ان ملازمتوں کے بدلے بلوچستان کے اندر ملازمتیں فراہم کرے ان تمام وفاقی اداروں کو ہدایات دی جائیں کہ وہ صرف مقامی اور بلوچستان کے لوگو ں کو ملازمتیں دیں نہ کہ ’ کے پی کے ‘ پنجاب اور قبائلی علاقوں کے لوگوں کو بلوچستان میں ملازمتیں نہ دی جائیں۔
جعلی ڈومیسائل اور بلوچستان میں بے روزگاری
وقتِ اشاعت : July 12 – 2015