جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آگیا ۔اس نے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تمام الزامات مسترد کردئیے اور حتمی طورپر یہ اعلان کیا کہ انتخابات کے نتائج عوامی توقعات کے عین مطابق ہیں اور اس سے عوامی رائے کی عکاسی ہوتی ہے ۔ عمران خان تواتر کے ساتھ یہ الزامات لگاتے رہے کہ عوام کا مینڈیٹ چوری ہوا ۔ چوروں کے سرغنہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس رمدے تھے ۔ا نہوں نے مینڈیٹ ریٹرننگ افسروں کی مدد سے چوری کی۔ عمران خان اپنے الزامات کو کمیشن کے سامنے ثابت نہ کر سکے ۔ جوڈیشنل کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ کچھ بد انتظامیاں اور انتخابی بے ضابطگیاں ضرور ہوئیں لیکن اتنی نہیں کہ پورے کے پورے انتخابات پر انگلی اٹھائی جائے ۔ عمران خان تقریباً ایک سال یاا س سے زیادہ عرصے تک خاموش رہے ۔ اچانک گزشتہ سال 14اگست سے اس نے احتجاج شروع کیا اور کوشش کی کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے ۔ مگر بعد میں اس کو دھرنے میں تبدیل کردیا اور اسلام آباد بلکہ پورے ملک کو 126دنوں تک یرغمال بنائے رکھا ۔ اپنی تمام تقاریر میں وہ غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے رہے اور دوسرے سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالتے رہے ۔ ان میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی شامل ہیں ۔ چوہدری افتخارنے عمران خان کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے پر ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے ۔ بہر حال عمران خان نے ریکارڈ پر یہ کئی بار کہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن جو بھی فیصلہ دے گا ان کو قبول ہوگا۔ اب فیصلہ آگیا ہے ، اس فیصلے میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ عمران خان ایک انتہائی غیر سیاسی شخصیت ہیں وہ سیاست میں حصہ نہیں لے رہے بلکہ وہ ملکی سیاست میں مداخلت کررہے ہیں ۔ ان کی کوشش تھی کہ مقتدرہ کی حمایت سے پاکستان کی دو سب سے بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو سیاست سے بے دخل کریں اور خود وزیراعظم بن جائیں۔ مستقبل میں وہ وزیراعظم بن سکتے تھے لیکن فوراً نہیں ۔ ان کی یہ غیر سیاسی خواہش تھی کہ وہ فوراً وزیراعظم بن جائیں ۔ ریفری جب انگلی اٹھائے گا تو موجودہ وزیراعظم بر طرف ہوجائیں گے اور وہ وزیراعظم بن جائیں گے ۔ دھرنے کے دوران انہوں نے وزیراعظم ہاؤس‘ پارلیمنٹ ہاؤس اور پورے سول سیکرٹریٹ کا گھیراؤ کیا اور پی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کیا اور پی ٹی وی کی ٹرانسمیشن میں خلل ڈالی ۔ ان تمام اقدامات سے واضح تھا کہ اس کو غیبی امداد مل رہی تھی اور ان کو یہ یقین تھا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی ۔ مگر جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ان کی سیاسی زندگی کی ایک بہت بڑی شکست ہے ۔ انہوں نے ضرورت سے زیادہ اس مسئلے کو اچھالا اور اسی بہانے ہر شریف آدمی کی پگڑی اچھالی جنہوں نے ان کی مخالفت کی ۔ اب عمران خان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ سیاست سے الگ ہوجائیں کیونکہ اب وہ کبھی بھی وزیراعظم نہیں بن سکیں گے ۔ وہ عوام الناس کے سامنے ذلیل اور خوار ہوں گے۔ ان کی سیاسی ساکھ کونا قابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اب وہ اس قابل نہیں ہوں گے کہ دوبارہ دھرنا لگائیں اور لوگوں کو اور ریاست کو ہراساں کریں ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’’ سیاسی سبکی ‘‘ کی کوئی مثال نہیں ملتی نہ ہی کسی سیاسی رہنما ء نے اپنے سیاسی مخالفین پر سرے عام اتنے الزامات لگائے۔ اب عمران خان کا کوئی سیاسی کردار نظر نہیں آتا بلکہپہلے بھی نہیں تھا ، ٹی وی اور میڈیا کے بل بوتے پر اتنی شہرت ان کو ملی ۔ اب نہ تو مقتدرہ کو کوئی دل چسپی رہی اور نہ ہی ملک کے معاملات اس قسم کے فضول باتوں کی اجازت دیتے ہیں ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کی ’’ سیاسی موت ‘‘ کو تسلیم کر لے اور اپنے لئے نئی قیادت تلاش کرے۔ عمران خان پہلے ہی دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں زیرو ہے ۔ اگر شاہ محمود چلے جائیں تو جنوبی پنجاب میں عمران خان اور تحریک انصاف وہاں بھی زیرو ہوجائے گی ۔ البتہ اب موسمی پرندے جو اس وجہ سے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے کہ عمران خان آناً فاناً وزیراعظم بن جائیں گے اب وہ بھی دوبارہ اڑنے کی کوشش کریں گے ۔ پی پی پی کے وہ لیڈران اور چوہدری سرور اب پچھتا رہے ہوں گے کہ ان کا فیصلہ غلط تھا ۔ اسی طرح کے پی کے میں زبردست ٹوٹ پھوٹ ہوگی اور روایتی پارٹیاں دوبارہ اپنا مقام حاصل کرلیں گی اور کے پی کے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔
عمران خان کو سیاسی شکست
وقتِ اشاعت : July 23 – 2015