ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی سیاست ملکی و صوبائی لیول پر بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔جس طرح پورے پاکستان کی سیاست صوبہ پنجاب کے گرد گھومتی ہے اس طرح ڈیرہ غازی خان کی سیاست صوبہ پنجاب پر بہت گہرا اثر رکھتی ہے۔صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ میں بھی ڈیرہ غازی خان کی سیاست کا اہم کردار ہوتا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ڈیرہ غازی خان ڈویژن جو ضلع راجن پور،ضلع لیہ اور ضلع مظفر گڑھ پر مشتمل ہے کے سیاسی خاندان صدر،وزیراعظم، وزیراعلیٰ ،گورنر،سنیٹرز، صوبائی اور وفاقی وزراء جیسے کئی اہم عہدوں تک فائز ہوتے رہے لیکن بدقسمتی سے علاقے کی تقدیر نہ بدل سکے۔وہ یہاں کے عوام کی محرومیوں کے ازالہ کیلیے کوئی مؤثر اقدامات نہ اٹھا سکے۔وہ خود تو مالی اور سیاسی طور پر مستحکم ہوتے رہے لیکن عام آدمی تک بنیادی ضروریات بھی نہ پہنچا سکے جو بہت بڑا المیہ ہے۔
آج کے جدید ترین دور میں بھی ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں صرف ایک یونیورسٹی ہے، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی اس ڈویژن میں کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پڑھنے کیلیے سکول تک نہیں ہیں،پینے کیلیے پانی نہیں ہے انسان اور جانور ایک گھاٹ سے پینے پیتے ہیں۔حیرت ہوتی ہے ایک سابق صدر کا پوتا اور سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی کا بیٹا جس کا خاندان پاکستان بننے سے بھی پہلے سیاست کرتا آ رہا ہے وہ علاقے میں لوگوں سے کہہ رہا ہوتا ہے میرے دادا اور بابا اس علاقے کیلیے کچھ نہیں کر سکے، میں اب یہاں سے منتخب ہو کر علاقے کو ترقی یافتہ بناؤں گا۔
20 اگست 2018 کا دن ڈیرہ غازی خان کیلیے خوش قسمت ترین دن تھا جب وزیر اعلیٰ پنجاب کا سہرہ ڈیرہ غازی خان کے پسماندہ علاقے بارتھی سے تعلق رکھنے والے سردار عثمان بزدار کو نصیب ہوا۔لوگوں کا خیال تھا کہ وسیب کا بندہ وزیراعلیٰ بن رہا ہے اب ہمارے حالات بدل جائیں گے۔ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔حقیقی تبدیلی عام آدمی تک پہنچے گی۔غریب اور عام آدمی کے حالات تو نہ بدل سکے البتہ بزدار خاندان کے حالات ضرور بدل گئے۔ہم نے دیکھا ہے پاکستان میں جب ایک سفید پوش طبقے پر سیاست کی دیوی مہربان ہو تی ہے تو راتوں رات دولت کی دیوی اس کی چوکھٹ کو چوم لیتی ہے۔
آج سردار عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالے کوئی چار سال کا عرصہ ہونے کو ہے سوائے زبانی جمع خرچ اور کاغذی دعوؤں کے ڈیرہ غازی خان کے عوام کیلیے صیح معنوں میں کچھ نہیں کر سکے جس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچا ہو۔
حال ہی میں چند دن قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے شہر اور سی ایم ہاؤس ڈیرہ غازی خان سے چند کلومیٹر دور گورنمنٹ سکول میں خونخوار کتوں نے حملہ کر کے طالب علم کو شدید زخمی کر دیا اسے بچانے کیلیے کوئی بھی اداراہ وقت پر نہ جاگ سکا۔نہ سکول انتظامیہ اسے بچانے کیلیے آئی، نہ ایمبولینس وقت پر پہنچی نہ ہی ہسپتال میں ویکسین دستیاب تھی۔آخر کار بچے کی موت واقع ہو گئی۔بچے کی جان جان چلے جانے کے بعد وزیر اعلیٰ نے ایکشن لیا اور بچے کے والد کو آٹھ لاکھ روپے کا امدادی چیک دینے کیلیے مشیر وزیر اعلیٰ حنیف پتافی اور ایم پی اے سردار احمد علی دریشک کا ایک وفد بھیجا۔انہوں نے وہاں جا کر مرحوم بچے کے والد کے دکھ میں شریک ہونے اور اظہار ہمدردی کرنے کی بجائے فوٹو سیشن کو ترجیح دی تاکہ ویڈیوز اور فوٹوز کو سوشل میڈیا پر شیئر کر کے سیاست میں خدمت کی خوب ایڈورٹائزمنٹ کی جائے۔جس پر مرحوم بچے کے والد برہم ہو گئے اور انہوں نے چیک لینے سے انکار کر دیا۔
آخر کی کیا لکھوں اور کیسے لکھوں؟
گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ڈیرہ غازی خان جس میں غریب طلباء عرصہ دراز بیس سالوں سے مختلف ٹیکنیکل پروگرامز میں تعلیم حاصل کرتے آ رہے تھے۔ اس کو ختم کر کے میر چاکر خان رند یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں ضم کر دیا گیا۔حالانکہ وزیر اعلیٰ صاحب نے کہا تھا نئی آرٹ آف دی ماڈرن انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا ،پھر کالج کو ختم کرنے کا فیصلہ سمجھ میں نہیں آتا۔اب غریب طلباء دور دراز علاقوں میں دھکے کھاتے پھریں گے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یونیورسٹی کی کلاسز کے ساتھ ڈپلومے کی کلاسز کو بھی جاری رکھا جاتا یا ڈیرہ غازی خان میں کسی اور جگہ کالج کو شفٹ کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔کالج کو مکمل طور پر ختم کر کے ملازمین کو ہیڈ آفس ٹیوٹا لاہور رپورٹ کرنے کا کہا گیا تاکہ انہیں کسی دوسری جگہ تعینات کیا جائے۔لیکن آج دو مہینے ہو گئے ہیں۔ان ملازمین کو کسی دوسری جگہ تعینات نہیں کیا جا سکا۔ تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے انھیں تنخواہیں نہیں مل رہیںجس کی وجہ سے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔
ویسے تو پورے پاکستان میں کرپشن اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن جتنی کرپشن ڈیرہ غازی خان میں ہو رہی ہے خدا کی پناہ کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جس میں کرپشن عروج پر نہ ہو، کرپشن کے درجنوں کیسز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں لیکن کسی ایک کو بھی ادارے اور انتظامیہ نے نہیں پکڑا ،پورے ڈویژن میں چور اور ڈکیت گینگز نے لوگوں کا جینا محال کیا ہوا ہے۔پہلے جہاں رات کی تاریکی میں ڈکیتی کی وارادتیں ہوا کرتی تھیں اب وہاں دن کے وقت وارداتیں ہو رہی ہیں۔لوگ دن کے وقت بھی سفر کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے ہیں۔
اقتدار کی کرسی ہمیشہ کیلیے کسی کے پاس نہیں رہتی،لوگ اور وقت ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتا ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ملک اور اپنی قوم کی ترقی کیلیے اچھے کام کرتے ہیں۔دوسری طرف وہ لوگ ہمیشہ کیلیے تاریخ کا سیاہ باب بن جاتے ہیں جو اقتدار کو اپنی ذات کیلیے استعمال کرتے ہیں۔اپنے خاندان کو ترقی دینے کیلیے استعمال کرتے ہیں۔اپنے ملک و قوم اور وسیب کے بارے کچھ بھی نہیں سوچتے۔وزیراعلیٰ صاحب اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کو تاریخ کس حوالے سے یاد کرے؟