وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کیلئے صحیح شعبوں کی نشاندہی کی ہے مگریہی شعبے اکثر بجٹ بناتے وقت نظر انداز کردئیے جاتے ہیں ۔ ماہی گیری ‘ معدنیات ‘ زراعت ‘ گلہ بانی کے شعبے جو صوبے کے ستر فیصد سے زیادہ لوگوں کو روزگار اور ذرائع زیست فراہم کرتے ہیں۔ ماہی گیری کے شعبے کو لیں تو 1200کلو میٹر طویل ساحل بلوچستان پر صوبائی حکومت نے کوئی اہم سرمایہ کاری نہیں کی اور نہ ہی اس کی ترقی کیلئے بجٹ میں گزشتہ ساٹھ سالوں سے اسی مناسبت سے رقوم مختص کی ہیں چونکہ اس میں کمیشن اور کک بیک نہیں ہے تو اس اہم ترین شعبے کو صرف ملازمین کی تنخواہوں اور دوسری مراعات کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ ماہی گیری کی ترقی سے متعلق جتنے بھی منصوبے بنائے گئے یا ان پر عمل کیا گیا اور ان کو مکمل کیا گیا وہ سب کے سب بین الاقوامی اداروں یا دوست ممالک کی جانب سے تھے، صوبائی حکومت کا اس میں کوئی حصہ نہیں ،صوبائی حکومت اور اراکین اسمبلی کی مرکزی توجہ صرف اور صرف سالانہ ترقیاتی پروگرام یا (پی ایس ڈی پی ) ہے حکومت اور اراکین صوبائی پارلیمان اس کے آگے یا پیچھے نہیں سوچتے ۔ گزشتہ سالوں یورپی ممالک نے حکومت پاکستان کو یہ تجویز دی کہ وہ ساحل مکران خصوصاً گوادر بندر گاہ کے قریب ایک بہت بڑا جہاز سازی کا کارخانہ لگائے، اس میں حکومت پاکستان یا بلوچستان کو کوئی حصہ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے جو زمین جس پر جہاز سازی کی صنعت قائم ہوگی وہی حکومت پاکستان یا بلوچستان کا حصہ ہوگا ۔ جہاز سازی کا یہ منصوبہ ابھی تک منصوبہ بندی کمیشن کے سرد خانے میں گزشتہ دس سال سے پڑا ہوا ہے صوبائی حکومت کو اس سے غرض نہیں۔ بات وہی ہے کہ یہاں کمیشن ملنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی کک بیک کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمارے رہنماؤں کوجہاز سازی کی صنعت سے کیا دل چسپی ہوسکتی ہے کہ وہ منصوبہ بندی کمیشن کے سرد خانے سے اس منصوبے کوباہر نکالیں اور اس پر عمل درآمدکریں اسی طرح معدنیات کے شعبے میں بھی تباہی اور بربادی کی وجہ بھی کمیشن ‘ کک بیک اور چائنا کٹنگ تھی اور ہے۔ تیسرا شعبہ زراعت ہے جہاں پر ضرورت کے مطابق سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے ۔ بلوچستان کے پاس دو کروڑ ایکڑ قابل کاشت زمین موجود ہے مگر اس کو زیر کاشت لانے کے لئے پانی نہیں ہے گزشتہ 67سالوں میں دو ڈیم حب ڈیم اور میرانی ڈیم بنائے گئے اور ایک پٹ فیڈر دوسرا کچھی کینال گزشتہ بیس سالوں سے زیر تعمیر ہیں اور شاید اگلے پچاس سالوں تک ان کی تعمیر مکمل ہو سکے گی۔ زیر زمین پانی کی صوت حال بعض علاقوں میں بہت اچھی ہے ۔ خصوصاً ہامون ماشکیل اور دوسرے علاقوں میں زیر زمین پانی دستیاب ہے مگر وہاں پر کاشتکاری سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے البتہ کوئٹہ ‘ مستونگ اور قلات کے قرب و جوارمیں پانی کی سطح خطر ناک حد تک گر چکی ہے اور اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو یہ پورا علاقہ بنجر اور ریگستان بن جائے گا ۔انسان اس خطے میں پانی کی عدم موجودگی میں نہیں رہ سکیں گے ۔ضروری ہے کہ پورے خطے میں سینکڑوں کی تعداد میں ڈیم بنائے جائیں تاکہ لوگوں کی پانی کی ضروریات ان سے پوری ہوں اور زیر زمین پانی کا لیول اونچا ہوجائے ۔ایک اور اہم ترین شعبہ گلہ بانی ہے اس سے لوگ اضافی خوراک حاصل کرتے ہیں اس شعبے کی ترقی کے وسیع مواقع موجود ہیں ۔ بلوچستان کا یہ شعبہ پورے خطے میں گو شت‘ دودھ ‘ مکھن اور دوسری ضروریات پوری کر سکتا ہے حکومت بلوچستان اسکو ترقی دے کر کروڑوں ڈالر برآمدات سے کما سکتی ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ بلوچستان کے پاس اپنے وسائل نہیں ہیں اگر موجودہ سال کے ترقیاتی بجٹ کے 54ارب روپے کو ان منصوبوں پر خرچ کیا جائے تو بلوچستان کی قسمت بدل سکتی ہے ۔ 54ارب کے ترقیاتی بجٹ کو 65اراکین اسمبلی میں تقسیم کرنا ظلم ہے عوام الناس کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ کھلم کھلا کرپشن ہے جو گزشتہ چالیس سالوں سے جاری ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایم پی اے اسکیم ختم کی جائے اور یہ فنڈ یا رقوم ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جائے ترقیاتی فنڈز پر ایم پی اے حضرات کا کوئی حق نہیں ہے ۔
بلوچ معیشت کے اہم شعبے نظر انداز
وقتِ اشاعت : July 29 – 2015