انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس نے حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ بلوچستان لیویز کو صوبائی پولیس میں ضم کردیا جائے۔ جنرل پرویزمشرف کے حکم سے بلوچستان لیویز فورس کو ختم کرنے کے بعد پولیس میں ضم کردیاگیا تھا ۔وجہ صرف یہ تھی کہ ایک سابق انسپکٹر جنرل پولیس جنرل مشرف کے قریب تھے اور ان کے مشیروں میں شمار ہوتے تھے ۔انہوں نے اور سیکورٹی کے دوسرے اہلکاروں نے جنرل مشر ف کو غلط رپورٹیں پہنچائیں اور ان کومشورہ دیا کہ بلوچستان لیویز فورس کی انفرادیت بہ حیثیت ایک ادارے کے ختم کی جائے اور اس کا نام نشان مٹانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو پولیس میں ضم کیا جائے۔ جنرل مشرف کو صرف ضرورت کی حد تک معلومات پہنچائی جاتی تھیں۔ ایک اطلاع ان کو یہ دی گئی کہ لیویز فورس کے اہلکار سرداروں کے نوکر ہیں ان کویہ نہیں معلوم تھا کہ بلوچستان لیویز ریاست پاکستان کی ایک فورس ہے اوران کوڈپٹی کمشنر کنٹرول کرتا ہے۔ یہ تنخواہیں سرکاری خزانے سے حاصل کرتے ہیں اور یہ ریاست پاکستان کے تابع ہیں، بلوچ اور پشتون سرداروں کے نہیں ۔میں خود اس پریس کانفرنس میں موجود تھا اور میں ششدرہ گیا جب جنرل مشرف نے یہ اعلان کیا کہ لیویز کے اہلکار سرکاری ملازم نہیں بلکہ سرداروں کے ملازم ہیں اس لئے ان کی الگ حیثیت ختم کی جارہی ہے ۔جب نواب اسلم رئیسانی جو ابتدائی زندگی میں پولیس افسر تھے، وزیراعلیٰ بنے توجو پہلا حکم انہوں نے دیا وہ بلوچستان لیویز کی بحالی تھی۔ بلوچستان لیویز گزشتہ کئی صدیوں سے خدمات سر انجام دیتی آرہی ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان لیویز کو عوام کا بے پناہ اعتماد حاصل ہے موجودہ صورت حال سے ہٹ کر بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ وجہ یہ تھی کہ بلوچستان کا ہر شخص لیویز کے اہلکاروں سے تعاون کرتا تھا ایک مرتبہ راوی کوئٹہ سے زاہدان جارہے تھے کہ نوکنڈی کے قریب ڈاکوؤں نے ایک بس کو لوٹ لیا لیویز فورس ایک جانب تھی اور ڈاکو دوسری جانب فرار ہوگئے لیویز کے سپاہیوں نے دوسری جانب اپنے رشتہ داروں اور قبائلیوں کو فون پر اطلاع دی کہ ڈاکو ان کی طرف فرار ہوگئے، ہماری نوکنڈی میں موجودگی کے دوران یہ اطلاع آئی کہ قبائلیوں نے ڈاکو ؤں پر قابو پالیا اور ان کو گرفتار کر لیا۔ اس طرح کے تعاون کا پولیس اور دوسرے سیکورٹی ادارے بلوچستان میں تصور ہی نہیں کر سکتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ’’منظم جرائم ‘‘ صرف پولیس کے علاقوں اور شہروں میں ہوتے ہیں۔ لیویز کیزیر کنٹرول علاقوں میں بد کاری ’ جوا ’ منشیات کے اڈے ’ چوری اور ڈاکوؤں کے گروہ موجود نہیں ۔ البتہ حالیہ دنوں میں بعض طاقتور لوگوں نے چوروں اور ڈاکوؤں کے گینگ بنائے ہیں اور سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی میں اغواء برائے تاوان میں ملوث ہیں۔ اس سے قبل اور نارمل حالات میں اس کا تصور بھی نہیں تھا کہ سربراہ شخصیات ڈاکوؤں ’ چوروں کے گروہ کی پشت پنائی کریں گے۔ ایک واقعہ میں سو سے زائد ڈاکوؤں نے نیشنل ہائی وے پر اور ڈیرہ مراد جمالی کے قریب درجنوں گاڑیوں اور بسوں اور ٹرکوں کو لوٹا۔ ظاہر ہے کہ یہ ڈاکو نہیں تھے یہ ایک قبائلی لشکر تھا جس کو اہلکاروں کی سرپرستی حاصل تھی اس دوران یہ ہوا کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر ہائی وے پر گزر رہے تھے تو ڈاکوؤں نے یہ سمجھا کہ پولیس آگئی اورانہوں نے فائر کھول دیا اور اعلیٰ ترین پولیس افسر کو گولیوں سے بھون ڈالا ۔ وجہ یہ تھی کہ پولیس نے اس قسم کے جرائم پر چشم پوشی اختیار کی تھی اور اعلیٰ ترین افسر اس کا خود نشانہ بن گیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان لیویز کو پولیس میں ضم نہ کیا جائے بلکہ اس کے معیار اورتربیت کو بڑھایا جائے اور اس کو پولیس کے برابر لایا جائے تاکہ تحقیقات اور مقدمات کی پیروی میں لیویز خود کفیل ہو ۔ ہمار ایہ مشورہ ہے کہ لیویز تھانے کا انچارج یا ایس ایچ او، پی ایس پی افسر ہو اور وہ مقامی ہوتاکہ لیویز کو جدید خطوط پر زیادہ مناسب انداز میں منظم کیاجائے ۔
لیویز کی الگ حیثیت بحال رکھی جائے
وقتِ اشاعت : July 30 – 2015