|

وقتِ اشاعت :   February 18 – 2022

طویل احتجاج کے بعد بھی ٹرالرزمافیا کا خاتمہ ممکن نہیں ہوپایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی رہنمائوں نے سوائے چند ایک کو چھوڑ کر کبھی بھی اپنے وعدوں کوپورا نہیں کیا۔ جناب وزیراعظم عمران خان کو ہی دیکھ لیں جو موجودہ دور میں اس کی سب سے بڑی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر اور باہر کے ملکوں سے لوگوں کے یہاں آکر نوکریاں کرنے کے دعوے خاک میں مل گئے۔ سری لنکن منیجر کے ساتھ جو حشر کیا گیا اس کے بعد کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ باہر سے لوگ نوکریاں کرنے یہاں آئیں گے؟ پچھلی حکومتوں نے جو ملک میں کافی حدتک ایک پرامن فضا قائم کی تھی اس حکومت کے آتے ہی انتشار برپا ہوگیا۔

مولانا ہدایت الرحمن سے حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے جو وعدے کئے تھے ان میں سے چند ایک پر شاید ہی عمل درآمد ہوا ہو لیکن جو سب سے چیدہ چیدہ نکات ہیں ان پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ سب سے بڑی اور اہم ٹرالرمافیا کے خاتمہ کا معاملہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔ محکمہ فشریز اس معاملے میں بالکل سنجیدہ نہیں کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ اکبر آسکانی کہنے کو تو محکمہ فشریز کے وزیر ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ،وہ چاہ کر بھی ٹرالر مافیا کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے۔ بلوچستان کو ترقی دینا تو دور حکومت ان جائز نکات پر عمل در آمد نہیں کرواسکتے۔

حکومت گوادر کی ترقی کو لے کر بالکل سنجیدہ نہیں ، محض روایتی کلچر کو برقرار رکھا جارہا ہے کہ گوادر کو دوسری فیز میں ترقی دی جائے گی۔ جب تک وفاق دعوئوں سے ہٹ کر عملی کارکردگی نہیں دکھائے گی، عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکتاہاں البتہ مولانا جیسے لوگوں میں اضافہ ضرور ہوگا۔ جھوٹے دعوے کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اتنا جھوٹ بولیں کہ لوگ یقین کرسکیں۔ بلاوجہ کے دعوئوں سے لوگوں کے توقعات میں اضافہ کرکے نفرت ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ مولانا کے نکات پر وفاقی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرے تو بلوچستان حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ اس بات کا لوگوں کو علم ہوا کہ بلوچستان حکومت وفاق کے سامنے اتنی بے بس ہے تو وہ وقت دور نہیں کہ وہ پرامن احتجاج سے وفاق کو جھنجھوڑ ڈالیں گے۔ بلوچستان میں حقیقی لیڈروں کا فقدان ہے اگر یوں ہی سیاسی کھیل میں عوامی نمائندوں کو پیچھے دھکیلا گیا تو حالات سنگین شکل اختیار کرجائیں گے اور اسکی ذمہ دار بھی وفاقی حکومت ہوگی۔ 2013 کے الیکشن میں نواز شریف نے جراتمندی کا مظاہرہ کیا اور ڈاکٹرمالک کو وزیراعلیٰ کے لئے منتخب کیا۔ وفاقی حکومت کے اس ایک فیصلے سے بلوچستان کے حالات کافی حد تک پرامن ہوگئے۔ تعلیمی میدان میں موثر اقدامات اٹھائے گئے۔ نوازشریف کے اس فیصلے کو عوام میں بہت پذیرائی ملی چونکہ اس ڈھائی سالہ دور حکومت میں تعلیمی میدان میں بہت کام کیا گیا۔ چار کالجز اور ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایاگیا۔

تربت میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا جس سے وہاں کے لوگوں کو میڈیکل کی تعلیم کے لئے دوسرے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑا۔ علاقے کے بچے بچیاں اپنے گھر تربت میں میڈیکل کی تعلیم سے مستفید ہوئے۔ موجودہ حکومت جو ہروقت اپنی حکومت کے جانے کے بارے میں سن کر ہی ہوش کھو بیٹھتی ہے اوروزراء جو منہ میں آئے بول دیتے ہیں، یہ اس طرح کے اقدامات کرنے سے تو رہے۔ ہاں البتہ بلوچستان حکومت کو اختیارات دیکر حقیقی عوامی نمائندوں کو ساتھ لے کر معاملات حل ہوسکتے ہیں۔