|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2022

آئی جی بلوچستان طاہر رائے کا تبادلہ کرکے محسن بٹ کو بلوچستان آئی جی تعینات کردیاگیاہے۔ گزشتہ برسوں میں کئی غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان پولیس میں بھرتی ہوئے ہیں جس میں آواران سے چند ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی شامل ہیں۔ ان نوجوانوں سے ابھی بھی کوئی پوچھے وہ آئی جی طاہر رائے کو اپنا مسیحا گردانتے ہیں۔

گزشتہ روز پولیس کی دوڑ، انٹریو و ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں معمول کی طرح کئی سفارشی تھے۔ آئی جی بلوچستان طاہر رائے نے ان کے سفارشی لیٹرز کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر آواران سے محض 3 لوگوں کا انتخاب کیا جن کا تعلق غریب گھرانے سے ہے۔

یاد رہے جب سے قدوس بزنجو حکومت اقتدار میں آئے ہیں ان کا آئی جی بلوچستان سے تضاد رہا ہے۔ حالیہ پوسٹوں پر ان کے من پسند لوگوں کو سفارشی بنیاد پر بھرتی نہ کرنے پر ایک مسیحا شخص کا تبادلہ کیاگیا۔ ٹھیک اس واقعہ کے بعد ہی آئی جی بلوچستان کے تبادلے کا نوٹیفیکشن جاری کیا گیا۔ جب تک بیوروکریسی آزاد نہیں ہوگی اس وقت تک کسی صوبے کی معاشی ترقی ممکن نہیں۔ صوبائی معاملات سے بے خبر حکومت یوں چائے کی چسکیاں لے کر بیوروکریسی کے دیانتدار آفیسران کا تبادلہ زیر بحث تو لاتا ہے مگر کوئی اسکے مثبت کاموں کی تعریف نہیں کرتا چونکہ انہیں ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو ان کے کاموں میں رکاوٹ بنیں۔

حکومتی پالیسیاں ناکام نااہل بیوروکریسی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ جو دیانتدار و تعلیم یافتہ بیوروکریٹس ہیں ان کا تبادلہ کرکے ایسے آفیسران تعینات کیے جاتے ہیں جو صرف ان کی جی حضوری کریں۔ علمی و ادبی شخصیات کا بیوروکریسی کی جانب رخ نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کیونکہ ایک علمی و ادبی شخص کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے فرائض کی راہ میں کوئی رکاوٹ بنے اور انہیں ایک میر معتبر کے تابع رہنے کا کہا جائے۔
گزشتہ دنوں آواران کے دو کسانوں نے زہر کھاکر موت کو گلے لگانے کی کوشش کی تاہم بروقت اسپتال پہنچانے پران کی جان بچ گئی۔ ایک طرف مہنگائی کاطوفان اور دوسری جانب پیاز کی ریٹ میں حددرجہ کمی نے کسانوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ آیا یہ حکومتی ذمہ داری نہیں کہ ان کے لئے کوئی اسکیم کا اجرا کرے ۔
ایک تصویر سوشل میڈیا میں زیرِ گردش ہے جس میں ڈی سی آواران، عبدالقدوس بزنجو و دیگر معتبرین نظر آرہے ہیں اور ساتھ میں لکھا ہے ہر بچہ اسکول میں،۔جناب شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ ضلع آواران میں 156 اسکول غیر فعال جبکہ 950 کے قریب اساتذہ کی پوسٹیں خالی ہیں۔ گرلز انٹر کالج ماشی کی عمارت تیار کھڑی ہے اور اس کے فنڈز بھی ریلیز ہورہے ہیں لیکن تاحال کالج بحال نہیں ہوسکا ہے۔ آواران کے دور دراز علاقوں میں اسکولوں کی ٹوٹی پھوٹی عمارتیں تو کھڑی ہیں لیکن اساتذہ کے بغیر تعلیم کیسے ممکن ہوسکتا ہے یہ سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا ، اور یہ کہ آواران موجودہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کا حلقہ انتخاب ہے جو بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے نکلے ہیں۔