5ستمبر کا ایک دن جب کسی دوست کے گھر برتھ ڈے پارٹی میں ہنستے ہنستے موبائل میں موجود وٹس اپ پر نظر پڑی تو آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ سکتہ سا طاری ہوگیا۔ وجود جکڑ سا گیا۔ خوشی کافور ہوگئی۔ اور بے اختیار منہ سے نکا” شائینہ قتل ہوگئی” محفل میں خاموشی چھاگئی۔ وہاں بیٹھے ہوئے شاہد کوئی شائینہ کو نہیں جانتا تھا۔ جو چند افسوس کے بعد پھر سے اپنی شغل میں مصروف ہوگئے۔ لیکن میں کیسے بھول جاتی، میں کیسے ذہن کو پُرسکو ن کرتی، میں کیسے درگزر کرتی، وہ تو میرے دماغ میں پیوست ہوگئی تھی۔ مجھے وہ دن یاد آئے جب وہ فرسٹ ایئرکی طالبہ تھی اور اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی تھی۔
اور کہا کہ میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں، آگے بڑھنا چاہتی ہوں، اور کہا ہم پانچ بہنیں ہیں بھائی کوئی نہیں، باپ بھی نہیں ہے صرف ماں ہے، میں اپنی ماں بہنوں کے لئے کرنا چاہتی ہوں۔ اُس چھوٹی سی دھان پان کی لڑکی میں ایک عجیب سی ایک دھن تھی، ایک لگن تھی، اُس میں ایک بے باکانہ سا خود اعتمادی تھی۔ جس کو دیکھ کر مجھے اُس کے لیے فکر سی ہوگئی، میرے دل نے کہا کہ یہ معاشرہ ضرور اِس کو ستائے گا۔ اُس میں معاشرے سے ٹکرانے کی صلاحیت تھی لیکن وہ نہتی لڑکی تھی۔ اور سماج نے ہر حال میں اپنے اُصول منوانے ہوتے ہیں، وہ سماج کے اصولوں پہ سرتسلیم ِ خم بھی ہوگئی، اُس نے بغاوت نہیں کی بلکیں معاشرتی تقاضوں کو مان کر چھوٹی سی عمر میں اپنے کزن سے خاندانی رضامندی کے ساتھ شادی کرلی۔ اور آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھا۔ پھر وہ اپنی میں دنیا میں مگن ہوگئی تھی۔ پھر لمبے عرصے بعد ہماری ملاقات ہوگئی وہ بالکل بدل چکی تھی، بہت کچھ پایا تھا اُس نے وہ بلوچستان کی نمایاں صحافی، مصورہ، سماجی کارکن تھی۔ لیکن ساتھ میں اپنا ذ ہنی سکون بھی کھودیا تھا۔ کسی ذہنی خلفشار میں تھی، بے سکونی کی کیفیت میں تھی۔ وہ بہت کچھ بتانا چاہتی تھی لیکن وہ بتا نہیں سکی۔ صرف اتنا کہا کہ ”لوگوں کے مائینڈ بہت چھوٹے ہیں ” اور شاید وہ اِس موضوع پہ مزید بات کرنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اُس نے کہا کہ میں سکون کی تلاش میں یہاں آئی ہوں۔ اور اُس کو کھریدنا مناسب نہیں تھا۔ اِس سن کے بعد پھر ہماری کھبی ملاقات نہیں ہوسکی۔ کھبی کھبار مسیج وٹس اپ وغیرہ پپ بات ہوتی تھی۔
پھر 5 ستمبر کو اُس نیوز نے ہوش اُڑھا دیے کہ شائینہ کو اُن کے شوہر نے تربت میں قتل کردیا ہے۔ پولیس کے مطابق شاہینہ کا شوہر واردات کے بعد فرار ہوگیا تھا جب کہ مقدمہ اُس کی ماموں کی مدعیت میں درج کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق مقدمے میں شاہینہ کے شوہر کو نامزد کیا گیا تھا۔ اور اُس کو پکڑنے کے لئے علاقے کی ناکہ بندی کردی گئی تھی۔ لیکن واقعے سے لے کر اب تک 2 سالوں میں کچھ بھی پیش رفت نہیں ہوسکا۔ اُس کی فیملی روڈوں پر نکلی، انصاف کے لئے پکارتے رہے، چیختے رہے، لیکن کسی کے کانوں میں جو تک نہیں رینگی۔ ایسے جیسے بندی ختم کہانی ختم۔۔۔ لیکن ایسے کیسے ختم؟
وہ تو اپنے ما ں بہنوں کا سہارا تھی، اُن کی فیملی تو انتہائی کرب میں مبتلا ہوگی، اور اِس حوالے سے وہ کیا کیا فیس کررہے میں نے اُس کی چھوٹی بہن معصومہ سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے بتایا کہ” 2 سال ہوگئے ہیں اور ہمیں پتہ نہیں کہ سکون کی نیند کیا ہوتی ہے، لگتا ہے صرف شائینہ قتل نہیں ہوئی ہم پورا گھر قتل ہوگیا ہے، ہم صرف سانسیں لیتی زندہ لاش ہیں، اِن دوسالوں میں روزانہ پولیس تھانے کے چکر کاٹتے ہیں، لیکن پولیس کے پاس کوئی مثبت جواب نہیں ہوتا، وہ ہر بار ہمیں یہ کہتی ہے کہ ہم ملزم کو گرفتار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہم چھاپے لگارہے ہیں، ہم اِس حوالے سے معلومات اکھٹے کررہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے سب سے ملاقات کی لیکن ہماری فریاد کوئی بھی نہیں سن رہا ۔
18 جنوری 2022 کو ہم نے تربت پولیس تھانہ کے سامنے دھرنہ دیا تھا، پولیس نے یہ کہہ دھرنا ختم کروایا تھا کہ ہمیں توڑا سا ٹائم دے دو ہم ملزم کو گرفتار کرینگے۔ ہم کسی پیش رفت کا انتظار کررہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ہم نے پولیس اور انتظامیہ کو بہت سی درخواستیں دی ہیں لیکن کوئی داد رسی نہیں ہوئی ہے۔ اور ملزم کی فیملی کی طرف سے بھی ہم پر کیس واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں، ہم نے اِس حوالے سے بھی پولیس کو درخواست دی ہے لیکن پولیس نے یہاں بھی کچھ نہیں کیا، معصومہ نے بتایا کہ یہ درخواستوں کی کاپیاں میرے پاس ہیں اور میں نے سوشل میڈیا پر بھی دیا تھا کہ اگر مجھ سمیت میرے خاندان کے کسی بھی فرد پہ کوئی آنچ آئی تو اسکی ذمہ دار ملزم کی فیملی ہوگی۔ ”
کیا اُس کو کھبی بھی انصاف نہیں ملے گا؟ کیا وجہ ہے کہ 2 سالوں میں ایک بھی پیش رفت نہیں ہوئی؟ کیا اُس کا خون سستا تھا یا خون بہانے والے کا وقار بہت قیمتی ہے؟۔ پھر یہ کہ انصاف کا معیار مختلف لوگوں کے لئے مختلف کیوں ہوتا ہے؟۔کیوں کہ یہاں ہرطرح سے خاموشی پائی گء تھی، نہ عورت بچاؤ این جی اوز نے اُس کے لئے کوئی آواز اُٹھائی، جب کہ وہ ایک صحافی بھی تھی تو صحافی برادری نے بھی اُسکے لئے کوئی آواز نہیں اُٹھائی۔ اِس خاموشی کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ اِس حوالے سے میں نے کوشش کی کہ پولیس سے بات کروں اُن کا موقف بھی جان لوں کہ وہ کیا کہتی ہے، تو یہاں پولیس ذرائع نے بتایا کہ اِس کیس میں بہت سے پیش رفت ہوچکی ہے ، ”اُنھوں نے بتایا کہ 5 ستمبر 2020 کو جب اسپتال میں موجود ہمارے اہلکاروں نے اِس واردات کے بارے میں بتایا کہ کسی لڑکی کو زخمی حالت میں اسپتال لایا گیا ہے جس کو گولیاں ماری گئی ہیں، تو ہم فورا اسپتال گئے۔ جہاں لڑکی مردہ حالت میں پڑی تھی۔ اہلکاروں نے بتایا کہ جس وقت لڑکی کو لایا گیا تھااُس وقت وہ آخری سانسیں لے رہی تھی۔ پھر ہم نے مقتولہ کی ماموں کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی جس میں اُس کے شوہر کو نامزد کیا گیاتھا۔ ہم نے ملزم کو پکڑنے کے لئے اُس کے گھر سمیت مختلف جگہوں پر چھاپے مارے لیکن وہ کہیں روپوش ہوگیا ہے۔ قانون کے مطابق ہم نے اُس کا قومی شناختی کارڈ بلاک کروادیا تھا تاکہ وہ باہر ممالک فرار نہ ہوجائے، لیکن اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ایران اور تربت کے بارڈر ملتے ہیں جہاں بغیر قومی شناختی کارڈ کے کوئی بھی بندہ غیرقانونی طریقے سے داخل ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ملزم ایران بھاگ گیا ہوگا۔ جن کی جائیدادیں سرکارنے ضبط کی ہیں۔
ہم اِس حوالے سے اپنی پوری کوشش کررہے ہیں ”۔ یہ تھی پولیس ذرائع کی باتیں جو وہ اپنی اب تک کی کارروائی بتارہی تھی۔ لیکن سوال یہاں سر اُٹھاتا ہے کہ تو پھر کمی ہوئی کہاں سے؟ کوتاہی ہوئی تو کس سے ہوئی؟ انصاف کیوں نہیں ہوا؟۔ کاش ایسا ہوتا کہ ہمارے ملک میں میڈیا ہر اُس خاتون کاکیس اُٹھاتاجو وہ ظلم و تشدد کا شکار ہوکر دنیا سے چلی جاتی ہیں اور پیچھے ایسے داستانیں چھوڑ دیتی ہیں جو اُن کی فیملی کے لئے ازیت، اُداسی اور تکلیف کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ کھبی تھانوں کے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں تو کھبی عدالتوں کے۔ نورمقدم جیسے واقعات تو پاکستان میں تقریبا ہر خاتون کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن ہرخاتون نورمقدم نہیں ہوتی جس کو میڈیا اتناہائی لائٹ کرے کہ جس سے ملزم سلاخوں کے پیچھے چلا جائے، اور عدالت کا فیصلہ بھی اُس کے خلاف آجائے۔ پاکستان میں اتنی اور کتنی نورمقدم ہیں جو اِس دنیامیں تو نہیں ہیں لیکن اُن کو انصاف دینے والا بھی کوئی نہیں۔نہ اُن کے لیے میڈیا میں کوئی آواز اُٹھانے والاہے اور نہ ہی اُس کے قریبی اضلاع میں، لوکل انتظامیہ میں، عدالت میں کوئی بھی نہیں ہے کہ بذات خود اِس چیز کا احساس کرے کہ یہ بھی کسی کی بیٹی اور بہن تھی، یہی واقعہ ہے جو شائینہ شائین کے ساتھ ہوا ہے۔ لیکن سب سے بڑا الزام نہ میڈیا کو دیا جاسکتا ہے اور نہ معاشرے کو موردِ الزام ٹہرایا جاسکتا ہے کیونکہ الزام لگانے والے بھی اِسی معاشرے کا حصہ ہیں۔
کس کس کو آپ الزام لگائینگے؟ عدلیہ کو؟ تھانے میں بیٹھے حوالدارکو؟ یا اُس تفتیشی آفسیرکو؟۔ شائینہ تو دنیا سے چلی گئی لیکن اپنے پیچھے ایک داستان چھوڑ گئی۔ جس میں سب سے بڑی بات جو ایک المیہ ہے وہ یہ ہے کہ کیا کھبی یہاں انصاف ملے گا؟۔ کیا اُس کے ساتھ بھی یہی ہوگا جو پاکستان میں بسنے والی ہر خاتون کے ساتھ ہورہی ہے، جو زندہ ہیں لیکن زندہ لاشیں ہیں، جو تکلیفیں اُٹھارہی ہیں۔ اُن کے سا تھ بہت سی کہانیاں جوڑی جاتی ہیں لیکن اصل حقائق کا کسی کو بھی علم نہیں ہوتا۔ عام طور پر اِس طرح کے کیسز میں عورت کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ خود ہی ٹھیک نہیں تھی، زبان دراز تھی، باغی تھی کہ تبھی اُس کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ مرد کا دامن ہمیشہ سے ہی صاف رہا ہے۔ لیکن کیا کھبی اُس کے دائیں بائیں معاشرے میں بسنے والے لوگوں نے اُس پہ ہوئے ظلم پہ کھبی آواز اُٹھائی ہے؟۔ کیا ہم اتنے اندھے، گونگے اور بہرے ہوچکے ہیں کہ ہمیں اتنا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ایک انسان اپنی زندگی گنوا کر دنیا سے چلی جاتی ہے اور ہم اُس کے پیچھے آواز تک اُٹھانا مناسب نہیں سمجھتے۔ اگر عورت کو صرف اِس جرم پر ماردیا جاتاہے کہ وہ خواب دیکھتی تھی، اپنے مطابق زندگی گزارنا چاہتی تھی تو یہ جرم ہر گھرمیں ہورہا ہے، لیکن اُس کی سزا صرف اُن عورتوں کو کیوں دی جاتی ہے جو دور افتادہ علاقوں میں رہتی ہیں؟۔ اللہ جانتا ہے کہ اُن کو انصاف کب تک ملے گا؟۔ اُن کی فیملی کو انصاف کب ملے گا؟۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں، جہاں مدینہ کی ریاست بھی قائم ہے۔ مگرکیا اِس مدینے کی ریاست میں عورت کو اُس کے حقوق نہیں دیے جاتے؟کیا مدینے کی ریاست میں جب کسی عورت کو بغیر کسی جرم کے ماردیا جاتاہے تو اُس کے لئے کوئی قانون نہیں ہوتا؟۔ کیا عدالت میں بیٹھا ہوا جج اِس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کسی انسان کو مارنے کی کیا سزا ہے؟۔ کیا تھانے میں بیٹھے ہوئے اہلکار وں کو یہ احساس ستائے نہیں رکھتا کہ وہ بھی کسی کی بیٹی تھی، کسی کی بہن تھی۔ لیکن یہ احساس اُس وقت جاگے گا جب ہم معاشرے میں عورت کو وہ صحیح مقام اور عزت دینا شروع کردیں۔
Masroor Ahmad
Very well written and and significant topic highlighted