|

وقتِ اشاعت :   March 4 – 2022

گوادر سی پیک کا مرکز ہے جس کی ترقی کے چرچے پورے ملک میں ہورہے ہیں۔ گوادر کو کبھی فیز 1 اور کبھی فیز 2 میں ترقی دینے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ ملکی معیشت کو سی پیک سے مستحکم کرنے کی خواہاں حکومت کو گوادر شہر کے مسائل کا کوئی ادراک نہیں۔ گوادر کا اصل چہرہ کچھ اور ہے جہاں ترقی کی باتیں ضرور کی جاتی ہیں لیکن ترقی زمین پر نظر نہیں آتی۔ لیکن گوادر کے مسائل سب کے سامنے عیاں ہیں ہاں البتہ اگر کوئی اندھا بہرہ بنے انہیں مسائل نظر نہ آئیں جیسے کہ گوادر کے غیر عوامی نمائندہ حمل کلمتی و سنیٹر کہدہ بابر کو تو گوادر مسائل سے پاک جنت نظر آتا ہے۔ 2013 سے جی ڈے اے کہتا آرہا ہے کہ مسائل صرف دو مہینے کے بعد حل ہوجائیں گے پر افسوس آج 2022 تک مسائل جوں کے توں ہیں۔ اور آج بھی جب ہم گوادر کتب میلہ پر موجود تھے تو “گوادر کی ترقی اور مقامی لوگوں کے تقاضے” کے موضوع پر ایک پروگرام کا انعقاد کیاگیا تھا جس میں جی ڈی اے ڈائریکٹر مجیب قمبرانی کے بھی وہی الفاظ تھے کہ دو ماہ کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔

پینل میں موجود باقی دوست جب کسی مسئلے کا ذکر کرتے تو بعد میں مجیب قمبرانی ان مسائل کا حوالہ دیکر کہتا بس دوماہ ہی کی بات ہے سب مسائل کا حل نکالا جائیگا۔ 9 سال سے مسائل جو ںکے توں ہیں اور جی ڈے اے کا بیانیہ وہی دو ماہ پر ہی اٹکا ہواہے۔ گوادر میں 46 اسکول غیر فعال جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں اسکولز ایسے ہیں جہاں پینے کا پانی نہیں۔ اکثر گرلز اسکول میں باتھ رومز تک کی سہولت نہیں ۔ جبکہ سی پیک کے تحت گوادر کے طلبا کے لئے باہر کے ممالک سے جو اسکالرشپ دیئے جاتے ہیں ان میں پنجاب اور اسلام آباد کے طلبا کو نوازا جارہا ہے۔

یہی وہ احساس محرومی ہے جس سے انتشار پھیلتی ہے۔ حکومت بلوچستان اپنے عہدے بچانے کے چکر میں مسائل سے دور بھاگتے ہیں اور جب تک بقول نواز شریف کے ووٹ کو عزت نہیں دی جاتی یہ سارا نظام یوں پستی کا شکار رہے گا۔ عوامی نمائند اپنے حلقے اور صوبے کے لئے ترقیاتی کام کریں گے کیونکہ انہیں احساس ہوگا کہ دوبارہ انہی عوام سے ووٹ لیکر منتخب ہوںگے ۔ یہ سوچ رہے گی تو علاقائی نمائندے باتوں سے زیادہ کام کو ترجیح دیں گے وگرنہ الیکشن میں کھڑے رہو اور ڈبہ بھرنا ہمارا کام پھر تو عوام کا خداحافظ”، تیزی سے جدیدیت کی جانب رواںدواں اس دور میں مزید یہ نظام نہیں چلے گی۔ بلوچستان کے ہر ضلع میں کثیر تعداد میں اسکول غیر فعال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کہیں عمارتیں کھڑی ہیں تو اساتذہ موجود نہیں اور کہیں علاقوں میں گرائونڈ پر عمارتیں تک موجود نہیں۔ جونسا بھی علاقہ ہو وہاں کے مقامی لوگ اور کیا چاہیں گے تعلیم، روزگار اور امن جس سے ایک خوشحال زندگی ممکن ہے۔

بلوچستان حکومت کو ایک اور عدم اعتماد کاخدشہ درپیش ہے اگر عبدالقدوس بزنجو اپنے اتحادیوں کو خوش نہیں کرپائے تو بزنجو حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو یقیناً اگلی پیشکش ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو کی جائے گی لیکن ڈاکٹر مالک عارضی منصب قطعی قبول نہیں کرے گا۔ صوبائی معاملات کا حال جو جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو کے ناقص اقدامات سے ہوا ہے اس سے باہر نکال آنا خاصا دقت طلب ہے اس لئے عین ممکن ہے کہ جمیت علمائے اسلام سے کسی کو وزارت کا منصب دیا جائے۔ ایک طرف اس عدم اعتماد کو کامیاب کرنا اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوںکی کوشش ہوگی تو دوسری جانب عبدالقدوس بزنجو کے لیے امتحان کہ وہ اپنے اتحادیوں کو خوش کرپائیں گے یا نہیں۔ اتحادیوں کو خوش کرنا بھی کوئی خاص مشکل نہیں، چند اپنے من پسند وزارتوں کے طلب گار ہیں تو چند ایک مراعات کے۔