|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2022

اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے بھی ریکوزیشن جمع کرا دی۔ ریکوزیشن قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی۔

اسپیکر قومی اسمبلی 14 روز میں اجلاس بلانے کے پابند ہوں گے۔پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ ہم نے 100 سے زیادہ دستخط کے ساتھ ریکوزیشن جمع کروائی ہے۔اس سے قبل مسلم لیگ ن کے ارکان قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کیے۔اپوزیشن کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما سعد رفیق اور پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے قومی اسمبلی اسپیکر آفس کو فیصلے سے آگاہ کر دیا۔شہباز شریف کی زیرصدارت ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ ن لیگی ارکان قومی اسمبلی سے تحریک پر دستخط لیے گئے۔اجلاس میں مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کے ڈی چوک جلسہ میں وفد بھجوانے کا فیصلہ بھی کیا۔

احسن اقبال، خواجہ آصف اور مریم اورنگزیب جلسہ میں شرکت کریں گے۔اطلاعات کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے ارکان کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کردی انہوں نے ارکان سے خطاب میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد آنے والی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی اجلاس کی ریکیوزیشن جمع کرائی جائے گی اس لیے ن لیگ کے تمام ممبران اسلام آباد میں رہیں۔ کسی بھی وقت قومی اسمبلی کااجلاس ہوسکتا ہے۔دوسری جانب یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر بعض اراکین کی مبینہ فہرست پیش کی گئی ہے۔وزیراعظم عمران خان کو مبینہ طور پر28 اراکین کی فہرست پیش کی گئی ، اس فہرست میں شامل تمام اراکین کا تعلق تحریک انصاف سے ہے جبکہ فہرست میں اتحادی جماعتوں کے اراکین کا ذکر نہیں ۔جن اراکین کے نام شامل ہیں وہ عدم اعتماد میں اپوزیشن کو ووٹ دے سکتے ہیں جبکہ مبینہ مشکوک اراکین کی نگرانی بھی شروع کروا دی گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق فہرست میں زیادہ تر وہ اراکین شامل ہیں جو دیگر جماعتیں چھوڑ کر تحریک انصاف میں آئے تھے۔ وزیراعظم نے ان تمام ناراض اراکین کو منانے کا ٹاسک پرویزخٹک اور شاہ محمود قریشی کو دیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور اپنی جماعت کے اراکین کی ناراضگی ملک میں موجود گورننس یا بحرانات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اول روز سے ہی پی ٹی آئی اندرون خانہ بعض حکومتی عہدوںپراختلافات کا شکار رہی ہے۔ بلوچستان حکومت سے لیکر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب تک اور وفاقی عہدوں پر تعیناتیاں سرفہرست رہی ہیں۔ خاص کر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے پی ٹی آئی کے بعض اراکین نالاں ہیں اور ان سے خوش نہیں ہیں اس کا تذکرہ بسااوقات پی ٹی آئی ارکان میڈیا کے سامنے بھی کرتے آئے ہیں کہ اجلاسوں کے دوران اراکین عثمان بزدار کی کارکردگی کے متعلق وزیراعظم کی موجودگی میں برہم ہوتے تھے کہ عثمان بزدار کی بیڈ گورننس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی پذیرائی میں کمی آرہی ہے اور ایک بڑے صوبے میں اگر اسی طرح حکومت چلتی رہے گی تو عوام ہم سے نالاں ہونگے ۔

یاد رہے کہ کے پی میں بلدیاتی انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرناپڑا اور اس کی بھی بڑی وجہ منظور نظر افراد کو ٹکٹوں کی تقسیم تھی جس پر وزیراعظم نے بھی بات کی تھی ۔بہرحال اس وقت وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں پی ٹی آئی کے ناراض گروپ اور نالاں اراکین کی شرکت صرف عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کی وجہ سے ہے ۔گزشتہ روز ایک بار پھر وزیراعظم عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے دکھائی دیئے اب دیکھنا یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک سے قبل کوئی بڑا فیصلہ ہوگا یا پھر بڑی تبدیلی ملک میں آئے گی ، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔