تعلیم کی اہمیت و افادیت سے کوئی ذی شعور شخص انکارنہیں کر سکتا موجودہ ترقی اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم تعلیم ہی کی مرہون منت ہیں۔ بلاشبہ جن قوموں نے تعلیم کو اولیت دی ہے وہی قومیں دنیا پر راج کر رہی ہیں۔ تعلیم ہی پسماندگی اور غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔جہاں کہیں بھی تعلیمی شرح بہتر ہے وہاں حقیقی معنوں میں ترقی اور شعور کا انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ دنیا کے گنجان ترین براعظم ایشیاء میں تعلیمی میدان میں پاکستان سب سے آخر میں ہے۔ پھر پاکستان میں بلوچستان انتہائی آخری نمبر پر ہے۔ اور پھر گرلز ایجوکیشن (بچیوں کی تعلیم) انتہائی کم سطح پر ہے۔
2017 کے ایک غیر سرکاری ادارے کے ایک سروے کے مطابق نصیرآباد ڈویژن میں لڑکوں کی تعلیمی شرح28.66 ہے یعنی 71.44 بچے تعلیم سے دور ہیں جبکہ لڑکیوں ( گرلز) کی تعلیمی شرح 17.46ہے یعنی82.54 بچیاں تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ ادوار میں فروغ تعلیم کے لئے کام کرنے والی تنظیم” الف اعلان ” کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں کل12 ہزار 3 سو 47 سرکاری سکول ہیں جن میں58 فیصد سکولوں میں صرف ایک استاد تعینات ہے۔ جبکہ اساتذہ کی 17 فیصد منظور شدہ اسامیاں خالی ہیں۔
سرکاری سکولوں کا انفراسٹرکچر انتہائی خراب اور بوسیدہ ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 47 فیصد سکولوں کی عمارتوں کی حالت غیر اطمینان بخش ہے۔ صوبے کے 5 میں سے 4 سکولوں میں بجلی، 3 میں سے 2 میں پینے کا پانی ، 4 میں سے3 میں حاجت خانوں ( بیت الخلاء) اور ہر4 میں سے3 سکولوں کو چار دیواری تک میسر نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں سکول جانے کی عمر کے27 لاکھ بچے ہیں جن میں 25 لاکھ سکول نہیں جاتے۔ پرائمری سکول میں داخلہ لینے والے 8 لاکھ 65 ہزار 3 سو 37 بچوں میں سے 57 فیصد پرائمری پاس کرنے سے قبل تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ بلوچستان میں سکول نہ جانے والے بچوں میں لڑکیوں کی شرح زیادہ ہے۔ 5 سے 16سال کی عمر کی62 فیصد لڑکیاں سکولوں سے محروم ہیں۔ پرائمری سکولوں میں لڑکیوں کے داخلے کی شرح 35 فیصد ہے جوکہ ہائی سکول تک پہنچتے پہنچتے صرف 4 فیصد رہ جاتی ہے۔ بلوچستان میں 5 سے 16سال کی عمر کے 27 لاکھ بچے موجود ہیں جن میں سے 18لاکھ یعنی 66 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ بلوچستان میں تعلیم مکمل کئے بغیر سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ پرائمری سکول میں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد 8 لاکھ 65ہزار 337 ہے جبکہ مڈل اور سکینڈری سکول میں پہنچ کر یہ تعداد تقریباً 7 لاکھ سے کم ہوکر صرف ایک لاکھ 91 ہزار 300 تک رہ جاتی ہے۔
سکولوں میں داخلہ لینے والے 57 فیصد بچے پرائمری پاس کرنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ صرف 23 فیصد لڑکیاں ایسی ہیں جو کبھی اسکول گئی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں 61 فیصد لڑکے ایسے ہیں جو کبھی اسکول گئے ہیں۔ بلوچستان میں گورنمنٹ اسکولوں کی تعداد ضرورت سے بہت کم ہے۔ تعلیم کی معقول فراہمی نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں گورنمنٹ اسکولوں کی کل تعداد 12347ہے جن میں سے صرف 6 فیصد ہائی سکول ہیں۔ زیادہ تر بچے گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں 5 سے 16سال کی عمر کے 69 فیصد بچے گورنمنٹ اسکولوں میں جبکہ 25 فیصد پرائیویٹ سکولوں میں جاتے ہیں۔ صرف 6 فیصد بچے مدرسوں میں داخل ہیں۔جوکہ صوبائی حکومت کی تعلیمی میدان میں لفاظی اقدامات کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ بلوچستان کے قبائلی نظام میں ایک طرف گرلز ایجوکیشن( تعلیم نسواں) کو معیوب سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف ان لڑکیوں کو گھر کی ملکہ کا درجہ دیا جاتا ہے اور تعلیمی اداروں میں ان کا داخلہ شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کو قائم ہوئے 75 سال ہونے کو ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیمی پسماندگی پر کسی بھی دور میں کوئی خاص قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں نا خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیمی نظام سے صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی اورغیر سنجیدگی کے باعث صوبے میں سینکڑوں تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ صوبے کے اکثر سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے زمین پر بیٹھ کر علم کی پیاس بجھارہے ہیں جبکہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ صوبے میں بہتر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث اساتذہ کی اکثریت گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہی ہے جبکہ کئی گھوسٹ اسکول بھی کام کررہے ہیں ان گھوسٹ سکولوں کا متعدد مرتبہ صوبے کے وزراء تعلیم تک برملا اظہار کرتے آئے ہیں۔ایسے میں گھوسٹ ملازمین دراصل غریب صوبے کے خزانے پر بوجھ ہیں۔ بلوچستان میں تعلیم کی جانب توجہ دینے یا محکمہ تعلیم میں کوئی بہتری نہ ہونے کی بڑی وجہ سیاسی اثرورسوخ اور محاذ آرائی ہے۔ سابق ادوار میں بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کے باوجود شعبہ تعلیم کی صورتحال بہتری کے بجائے مذید تنزلی کا شکار ہوتی چلی آئی ہے۔ صوبے کی ابتر تعلیمی صورتحال پرغیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ساتھ خود حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
صوبے میں تعلیمی انقلاب اور تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کے باوجودبلوچستان میں کم وبیش 250 کے قریب فرضی یا غیر فعال سکولز ہیں۔ صوبے کا تعلیمی معیار پورے ملک میں سب سے زیادہ خراب ہے اور تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے بلوچستان کا کوئی بھی ضلع اوپر کے درجوں میں نہیں آتا۔
تعلیمی اصلاحات لانے والے حکمران آج تک اساتذہ کی سو فیصد حاضری تک کو یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ جبکہ حکومت اور یونیسف کے سخت اقدامات کے باوجود بلوچستان کے سکولوں میں ہر روز 30 فیصد اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں اساتذہ کی کمی اور تعلیمی ابتری کے باعث زیر تعلیم طلبہ کی صلاحیتیں بہت زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔
ماہرین تعلیم کے مطابق اس پریشان کن صورتحال کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سکولوں کی کمی، سکولوں میں سہولیات کی عدم فراہمی، اساتذہ کی کمی و غیر حاضری، ان کی سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں اور مڈل و ہائی سکولوں کے طویل فاصلے پر قائم ہونے جیسے محرکات سرفہرست ہیں۔
تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے تمام صوبوں اور علاقہ جات کی نسبت بلوچستان کا تعلیمی معیار انتہائی پستی پر ہے۔ تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے بلوچستان کا کوئی ضلع بھی اوپر والے درجوں میں نہیں آتا ہے۔ بلوچستان کے 32 اضلاع میں سے 24 ضلعوں کا سکور 50 سے بھی کم ہے۔
صوبہ میں تعلیمی ماحول کو بہتر کرنے اور تعلیمی نظام کو آگے بڑھانے کیلئے سال کے ابتدائی دنوں میں اسکولوں میں باقاعدہ داخلہ مہم چلائی جائے تاکہ والدین میں تعلیم کے لئے شعور پیدا کیا جاسکے۔ لیکن اس حقیقت کو حکومتی سطح پر کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ جب تک حکومت زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کرتی بلوچستان کسی بھی لحاظ سے ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی جانب سے محض مفروضوں اور دعوؤں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ آگ کے اس دریا کو عبور کرنے کیلئے فوری اور ٹھوس اقدامات کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔