|

وقتِ اشاعت :   March 11 – 2022

ملکی تاریخ میں دوسری بار جمہوری دورمیں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لائی جارہی ہے۔ ویسے تو ملکی تاریخ میں یہ تیسری بار عدم اعتماد کی تحریک ہوگی۔ پہلی دفعہ سن 1989 میں بے نظیر کیخلاف تحریک لائی گئی اور ناکام ہوگئی۔دوسری دفعہ شوکت عزیز کے خلاف جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد عدم اعتماد لائی گئی ،جس میں وزیراعظم کو ہٹائے جانے کے لیے مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کیے جاسکے۔ پیپلزپارٹی کی جب حکومت آئی تو 18ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کی بھی ترمیم کی گئی۔

جس کے مطابق اگر کوئی ممبر قومی اسمبلی لیڈر آف دی ہائوس کے انتخاب، اعتماد اور عدم اعتماد کی ووٹنگ یا مالیاتی امور کے لیے ووٹنگ کے دوران پارٹی پالیسی کے خلاف جاتا ہے۔ تو پارٹی آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کرکے اس رکن کو نکال سکتی ہے اور اس کی نشست الیکشن کمیشن کے اعلان کے بعد خالی ہوجاتی ہے جس کیلیے پارٹی سربراہ کو اسے پارٹی سے نکالنے کااعلان کرنا ہوگا اور اس کی ایک کاپی ایوان کے افسر صدارت کنندہ (اسپیکر یا چیئرمین) اور ایک کاپی چیف الیکشن کمشنر کو ارسال کرنا ہوگی۔ لیکن اس سے قبل پارٹی سربراہ کو منحرف رکن کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرکے جواب بھی لینا ہوگا۔ افسر صدارت کنندہ دو دن میں اس اعلان کی کاپی الیکشن کمیشن کو ارسال کرنے کا پابند ہوگا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں دو دن بعد ہی اعلان کی کاپی ارسال سمجھی جائے گی۔ الیکشن کمیشن اعلان وصولی کے 30 دن کے اندر اس اعلان کی توثیق کرے گا یا اس کے کیخلاف فیصلہ دیگا۔ الیکشن کمیشن کے اعلان سے ناراض فریق 30 دن میں عدالت عظمیٰ میں فیصلے کیخلاف درخواست دے سکے گا۔

عدالت عظمیٰ بھی 90 روز کے اندر درخواست پر فیصلے کی پابند ہوگی۔ لیکن الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان سے قبل رکن اسمبلی ووٹ دینے کا حق رکھ سکے گا۔ اب بات کی جائے حالیہ عدم اعتماد کی تحریک کا تو حکومت اور اتحادیوں کے پاس کل 178 نشستیں ہیں جن میں سے 155 نشستیں صرف پی ٹی آئی کی ہیں۔جبکہ اپوزیشن نشستوں کی تعداد 163 ہے اور انہیں تحریک کامیاب بنانے کیلیے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔ لیکن اگر علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوتے تو درکار ووٹوں کی تعداد 10 ہوجائے گی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومتی اتحادی جماعتوں کا فیصلہ کیا ہوتا ہے اور کیا ان کے ارکان پارٹی پالیسی کے مطابق چلتے ہیں یا کہ اس سے منحرف ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اتحادی جماعت اپنے رکن کیخلاف کارروائی کرتی بھی ہے تو اس کا نقصان اسی جماعت کو ہوگا اور اس جماعت کی جیتی نشست خالی ہوجائے گی، جس پر دوبارہ انتخاب الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول جاری کرنے کے بعد ہوگا۔ اپوزیشن کی بھی اس وقت پوری توجہ حکومتی اتحادی جماعتوں کے 22 اور ایک آزاد رکن پر ہے۔ اگر کوئی حکمران جماعت پی ٹی آئی سے منحرف ہوجائے اور اس کے خلاف اعلان کی الیکشن کمیشن توثیق کرے، تو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے وزیراعظم کو منتخب کرنے کیلیے حکومتی اتحاد کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔